کسی بھی مذہب کو ماننے والے لوگوں میں ہرطرح کی حیثیت رکھنے والے لوگ شامل ہوتے ہیں، قادر مطلق بھی ہمارا ایک پیغمبربھی ایک اور کتاب بھی ایک ہے،سلام اس آمنہ کے لعل پہ جو اس کائنات کے ہونے کا سبب بنا، اور سنت رسول زندگی کاایسا لائحہ عمل دے گیا جو اطاعت گزار کیلئے ہمارے معاشرے اور انسانی زندگی کو مختلف اخلاقی پہلوﺅں کی ضرورت پوری کرتی ہے، یہ تمام اخلاقی پہلو ہمیں آپ کی سوانح میں ملتے ہیں کتنی خوش قسمت ہے امت مسلمہ کہ اسے زندگی کا کوئی بھی معیار بنانے اور اخلاقیات کوجاننے کیلئے پورا عملی نمونہ مل گیا۔آج کا تاجر، تاجرحضرت طحٰہ کی تقلید کرے تو بدعنوانی، چور بازاری، ناپ تول میں کمی جیسی لعنت سے بچ سکتاہے، فقروتقویٰ کو اپنانے والا شعب ابی طالب کے محصور کی صورت آپ کی پیروی کرکے صحیح متقی وپرہیز گار بن سکتاہے۔
استاد اگر صفہ کے معلم کو نظر میں رکھے تو درس وتدریس کی تاریک راہوں میں مشعل روشن کرسکتاہے، ہمارے سپاہ اور جیالے اگر فاتح بدروحنین کے سپہ سالار کو نگاہ میں رکھیں تو دشمن دین کو تہس نہس کرسکتے ہیں، والدین اگر فاطمة الزہرہ کے پدر محترم کو نگاہ میں رکھیں توشفقت کی کرنیں اولاد کی زندگیوں کی تاریکی کومنورکر سکتی ہیں،اگر اسلام کے قاضی ومنصف کو پیروکار بنایاجائے تو پوری دنیا میں مملکت اسلامیہ کے عدل کا نہ صرف ڈنکا بجنے لگے بلکہ ہمارے اپنے جمہوری ملک کے اندر کرپشن ،بدعنوانی اور انتشار، خلفشار کی نہ ختم ہونے والی اندرونی جنگ بھی ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے، انہی تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ نے فرمایا۔ ”کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں خدا کی محبت کا دعویٰ ہے تو آﺅ میری پیروی کرو“ اسلام نے جو تدبیر اپنائی وہ مذہب کے پرچار کی بہترین صورت تھی، ”کہ حضرت محمدﷺ کو معبوث کیا۔ آپ پر کتابی صحیفہ قرآن پاک کو اتارا اور نبی کریمﷺ کے پلک جھپکنے کے عمل سے لے کر زبان کی ادائیگی اور قدموں کی چاپ سے لے کر انگلیوں کی جنبش تک ایسا عملی نمونہ ہمارے سامنے پیش کردیا کہ جنہوں نے قرآن پاک کو نہیں پڑھا تو وہ بھی حضور پاک کی سیرت میں اس کو مکمل پڑھ لیتے اور جنہوں نے آپ کو نہیں دیکھا یا سنا وہ قرآن پاک کے ایک ایک حرف نقطہ اور شدومد کے اندر ان کے سیرت وسراپے کو دیکھ لیتے ہیں ”سبحان اللہ“۔
ہماری زندگیوں میں بگاڑ کی صورت تب پیدا ہوئی جب ہم نے اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی بجائے چھوڑ دیا اور غیراخلاقی عادات واطوار اپنا کراپنی مرضی سے اسلام کے اصولوں کو توڑنا مروڑنا شروع کردیا، ہمارے حضور پاک کی ذات بابرکت کو تو حضرت سلیمان ندوی نے بارش برسانے والے بادل کی مانند قرار دیا جس سے کائنات کا ہروجود ہرمیدانی صحرائی، جنگلاتی اور بحری اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق سیراب وشاداب ہوتے ہیں، اپنی فطری صلاحیت ولیاقت کے مطابق کچھ لوگ ا?پ کی برکات سے مستفید ہوکر غلام سے سیدنابلالؓ کے رتبے تک پہنچ گئے اور کچھ ابوجہل جیسے سردار غلاموں سے بھی بدتر حیثیت میں اس دنیا سے چلے گئے۔
اس کرہ ارض پہ دکھی انسانوں کا ایک ہجوم ہے۔ جن میں بلاامتیاز رنگ ونسل اورطبقاتی مدارج کے کروڑہا انسان مفلوک الحال ، سفید پوش، محروم ومفلس، زمینی اور آسمانی آفات کا شکار ایسے لوگ ان رفقائے کاروں کی طرف نظریں جمائے اور ہاتھ پھیلائے بیٹھے ہیں جن کے پاس اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنے کا وقت بھی نہیں ہے، ایسی دکھی اور قابل رحم انسانیت کی خدمت پہ مامور ان گنت ادارے کام کررہے ہیں جن کا بہت بڑا حوالہ ان کا دردمند دل ہے۔لوگ اپنی زندگی میں سے وقت نکال کر بنا کسی عرض وغایت کے سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔
قارئین دراصل جو کتاب ہدایت ہمیں دی گئی ہے اسکے شعور وادراک کیلئے اپنے اندر اللہ کی مخلوق سے محبت اور انسانیت کی پہچان ضروری ہے، بات یہاں ایک روٹی کے چار ٹکڑے کرنے کی نہیں اس کی تقسیم درست کرنے کی ہے، اسی کیلئے ہم اپنے کمیونٹی میں تو کام کرسکتے ہیں اگر ہم کسی تنظیم کا حصہ نہیں بھی ہیں تو اپنے غریب رشتہ داروں کو ڈھونڈ کر ان کی سفید پوشی کا بھرم ٹوٹنے سے تو بچاسکتے ہیں۔اگر ہم کامیاب لوگوں کی کہانی سنیں تو ہمیں علم ہوگا کہ ان کی کامیابی کے پیچھے کتنے ایسے مسائل معاشرتی رویئے، تلخ حقیقتیں اپنے مقام پہ کھڑی ملتی ہیں جہاں سے انسان شاید گھبرا کے ہارمان کر اپنے راستے یا مسدود کرلیتے ہیں یامنزل کا تعین بدل دیتے ہیںمگر انسانیت سے محبت کرنے والے درددل سے آشکار لوگوں کے نہ ارادے متزلزل ہوتے ہیں نہ ہی وہ مقابلے سے ڈرتے ہیں اوریہی حکم ہمارے نبی رحمت للعالمینﷺ کا ہے اور اللہ کی مخلوق سے محبت دراصل اللہ سے محبت ہے۔
دین سمجھنے ہی میں عافیت ہے
Mar 15, 2024