مستحسن خیال کا منفرد نعتیہ کلام

Mar 15, 2024

ڈاکٹر افتخار شفیع


ہمارے پیارے دوست مستحسن خیال پیشے کے اعتبارسے بینکر ہیں۔ اگرچہ ملازمتی امور کے دوران ان کا ہندسوں سے علاقہ رہاہے لیکن انکی اصل محبت لفظ ہیں جو شاعری کی صورت میں نمایاں ہوتے رہتے ہیں۔ مستحسن صاحب اسم بامسمیٰ ہیں۔ ہم نے اس کالم کے لیے ان کے اوصاف کی ایک فہرست تیار کرلی تھی۔ اچانک خیال آیا کہ ہماری موضوعہ ہستی تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات ہے۔ اس ذات کے سامنے کسی اور کی تعریف بقول سیدعطااللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ ”شرک فی النبوة“ ہے۔ بس یہی عرض ہے کہ اس سے پہلے مستحسن خیال صاحب کے تین شعری مجموعے ”عکسِ خواب“ (1990ئ)، ”چاند تنہا نہ ہو“ (1997ئ) اور ”رنگ اس کی یاد کا“ (2013ئ) کے عنوان سے شائع ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں ان کا ایک منفرد نعتیہ مجموعہ ”صحیفہ دل کا “ شائع ہوا ہے۔ 
سچ پوچھیں تو نعت بطور صنف ادب نا دیدہ جزیروں کی دریافت کا عمل ہے، جہاں اظہار کی اساس ہی صدق مو¿دت ہے۔ یہ کوہستانی سفر سے مشابہ ایک دشوار گزار مرحلہ ہے، جس سے روحانی اثرات کے جھرنے بھی پھوٹتے ہیں۔ نعت نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے الفاظ وحروف کے ایسے محلات تعمیر ہوتے ہیں ،جہاں تصورات و نظریات کی دیگر سربہ فلک عمارتیں زمیں بوس ہو جاتی ہیں۔ بڑے بڑے عقائدکے ہجوم سرچھپاتے پھرتے ہیں۔
 انسانیت کے اس نسلی ارتقا میں جامعیتِ کبریٰ صرف ایک ہستی کے ہاں ملتی ہے، جس کا اسمِ پُرانوار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اسی کی سرمدی بہاروں کا فیضان حقیقتِ محمدی ہے۔ سرکارِ ہردوعالم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری و باطنی تصرفات کی حدودو قیود کا ادراک ممکن نہیں ۔ جو ذاتِ اقدس ادراک و منطق کی سرحدوں سے ماورا ہو، جس کے حضور انور عقلِ انسانی سر جھکائے کھڑی ہو، جہاں صورتِ محمدی کی پہچان اورحقیقت محمدی کی تفہیم وتوضیح عقول سے برتر ہو، اس بارگاہ تک رسائی کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں۔
 ہماری شاعری میں داخلی کیفیات کی ترجمانی ہو، یا ملت کے اصلاح احوال کے تذکرے، ملتِ بیضا کی مشکلات کو استغاثے کی صورت میں بیان کرنے کا ہنر ہو یا حسن وجمال روحانی نقش گری کی لگن، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف کے منظم رحجانات بہ آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ قدیم اردو میں معراج ناموں اور شمائل ناموں سے فروغ پانے والی اس پر نور اور معطر شاعری نے اکیسویں صدی میں مذہبی شاعری کے تشکیلی عناصر کوبھی سائنس کی ترقی اور مادیت پرستی کے تناظر میں فرد کی تنہائی کے ساتھ وابستہ کردیا ہے۔
 نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشقیہ تناظر میں الفاظ و معانی کے سارے خراج نامے، عقیدت کے سبھی پھول اور شعر و سخن کے تمام قرینے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا کی رہ گزر سے نہ جانے کتنے انسانی قافلے گم نامی کا تمغہ سجائے گزرگئے؟ ان کی شناخت پر ماضی کی گرد جم گئی، کتنی تہذیبیں اجڑیں تو ان کے ساتھ ان کے خالق اور بانی بھی انسانی ذہنوں سے محو گئے اورایک یہ ہستی کہ جس کے جمال میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اس کی تعریف و توصیف کا عمل مسلسل ایک تحریک بنتا جا رہا ہے۔
اس سے بڑی سعادت اورکیاہوگی کہ ہمارے پیارے شاعر مستحسن خیال صاحب بھی انفرادیت کے حامل اس نعتیہ مجموعے کے ذریعے اس مقدس ومحترم ہستی کے مدح سراﺅں میں شامل ہورہے ہیں۔
مستحسن خیال صاحب کے ہاں پیدا شدہ فکری ارتقا نے اب نعت رسول مقبول کو اظہارکا وسیلہ بنالیا ہے، بلکہ یوں کہیے کہ ذات باری تعالیٰ نے مستحسن صاحب کو نعت میں اس نئے تجربے کے لیے منتخب کیا ہے۔
 اس شعری مجموعے کی اشاعت نعتیہ ادب کی مقدس روایت کی تجدید ہے، اس کی ترتیب بھی مختلف ہے، کتاب کے ہرباب کی ابتدا اور انتہااسی ہستی کی تعریف یعنی حمد سے مملو ہے جوخوداول وآخر ہے۔ پہلے باب میں آدم علیہ السلام، نوح علیہ السلام، صالح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت صادقہ کے حالات و واقعات سے روشنی کشیدکرکے توصیفی نظمیں درج کی گئی ہیں، اوراس سے متصل اسی زمین میں نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم شامل کی گئی ہے۔ 
دوسرے باب میں بھی نعوت سے اول وآخرحمد باری تعالیٰ شامل ہے۔ تیسرے باب میں آں حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی حیات مقدسہ کے سالوں کی نسبت سے تریسٹھ اور اعلان نبوت کے بعد مکی اور مدنی زندگی کی مناسبت سے نعت شریف کے تیرہ اوردس اشعار شامل کیے گئے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق دنیاکی کسی بھی زبان کے ادب میں اس سے پہلے شاید اس نوعیت کی کاوش نہیں کی گئی ہوگی۔ مستحسن خیال کے نعتیہ مجموعے میں سے چند اشعار بطور نمونہ درج ہیں: 
خود خدا نازاں ہے والشمس سی اس صورت پر
ایسا چہرہ کبھی تشکیل نہیں ہوسکتا
وہ شبِ اسریٰ گئے تھے آسمانوں پر خیال
وہ مجھے در پر بُلائیں میری اسریٰ ہے یہی
وہ بچپن کہ پاکیزگی کامرقع
طہارت مجسم جوانی ہے اس کی
پڑھتا ہوں درود اس پہ دعا ہوکہ دوا ہو
ہے مجھ کو پتا کیسے اسے اکسیر ہے کرنا
حاضری ہودرِ اقدس پہ یہ ارادہ کرلو
حکم ہونا ہے، کسی آن بھی ہو سکتا ہے
کارِ دنیا تو فقط کارِزیاں ٹھہرا ہے
آپ کا ذکر ہی سرمایہ¿ جاں ٹھہرا ہے
میں غلام آپ کا ہوں ابن غلام آپ کا ہوں
نامور ہوں کہ یہی نام ونشاں ٹھہرا ہے
محشرمیں پہنچ کربھی سناﺅں گا میں نعتیں
بولیں گے فرشتے یہی”سرکار وہی ہے“
اس رحمتِ عالم نے عطاکردی معافی
دشمن بھی اگر درپہ کوئی آن پڑا ہے
رب گنہگاروں کی بخشش کا جو پوچھے گا خیال
اس کے محبوب نے کہنا ہے کہ”سارے سارے“
 جس معاشرے میں ملائیت دورکعت کے امام کی محتاج ہو اور فکرو تفلسف ذہنی انجماد کا مظہر قرار پائے وہاں ایسی شعری ضوفشانیاں خراج تحسین کے لائق ہیں۔ مستحسن خیال صاحب کی اس شعری تخلیق میں ایک منظوم فنتاژیے کی جھلک بھی موجود ہے، اگر وہ کوشش کریں تو اس فن کی مزید سمتوں کاسراغ لگا سکتے ہیں۔ 
مستحسن خیال صاحب واقعی تحسین کے لائق ہیں کہ انھوں نے آں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعریف وتوصیف کی اس عظیم الشان روایت میں ایک منفرد اور انوکھا تجربہ کیا ہے۔
٭....٭....٭

مزیدخبریں