”مسلمان اور رمضان“ 

”یوٹیلیٹی سٹورز“ کے اوقات کار رات ”10بجے “ کرنے اور سٹورز کے ”ملازمین“ کو فی ملازم یومیہ ”500روپے“ افطاری دینے کا فیصلہ درست ہے۔ کم اوقات کیوجہ سے رش بہت بڑھ جاتا تھا جو بسا اوقات نقصان کا موجب بنتا تھا۔ ”رمضان کریم“ برکتوں۔ رحمتوں۔ سلامتی والا مہینہ ہے۔ ہر شخص عام ایام سے بڑ ھ کر چوکس۔ تازہ دم نظر آتا ہے۔ ہمہ وقت ذی نفس اِسی کوشش میں دکھائی دیتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ثواب سمیٹنے کے اقدامات لیتا جائے تو پھر ”برکت“ کو ہم اِس مفہوم میں کیوں بطور خاص پیش نظر رکھتے ہیں کہ بس منافع ہو اور بے تحاشا ہو۔ جائز حد تک نہیں بلکہ ہر ممکن حد تک۔ اِس سوچ میں ہماری ”امت مسلمہ“ کے غم میں دن رات رونے والی کیفیت یکسر عنقا ہوتی ہے۔ کیا ہمارے خریدار بھائی ہمارے حسنِ سلوک کے حقدار نہیں ؟
مارچ کے شروع کی خبر۔ ”متحدہ عرب امارات“ میں 4ہزار اشیاءکی قیمتوں میں ”25سے 75فیصد“ تک رعایت ملے گی۔ ہمیشہ ہی دیکھا کہ ”رمضان کریم“ شروع ہونے سے پہلے ہی حکومتی اور نجی سطح پر بڑے پیمانے پر عوام کو بلا تفریق رعایت۔ خصوصی انعامات۔ پ±رکشش پیکجز کا نہ صرف اعلان ہو تا ہے بلکہ عمل درآمد بھی حکم سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ یورپ میں بھی ایسامعمول ہے اور نظام ایسا کہ بس آرڈر آیا اور عمل شروع۔ بہت کم مثال ملے گی کہ اعلیٰ حکام۔ وزراءکی فوج در فوج آپ کو کبھی ”سٹورز“ پر چیک کرتی دِکھائی دے۔ بیرونی دنیا کا نظام آئین۔ قانون کے احترام پر مبنی ہے۔ عوام دوست صرف کاغذات میں نہیں عملاً بھی غریب پرور۔ عوامی فلاح پر ا±ستوار ہے اور نظر آتا ہے۔ اور قارئین ہم؟؟ معاشرے کو زنگ آلود کرتے درجن بھر شیطانی کاموں کی طرح ”مہنگائی“ بھی بے قابو” جن“ بن چکی ہے۔ گھنٹوں کے حساب سے اشیاءکے نرخ بدلتے ہیں ایک ہی شہر میں اشیاءکے دام مکمل ”دوکان دار“ کے قبضہ ہوس میں ہیں۔ کوئی چیک نہیں۔ روک تھام نہیں۔ سستے بازاروں کا ماڈل بھی ریلیف دینے میں ناکام ہے۔ 5روز قبل ”120 روپے“ کلو پیاز اب” 300روپے“ میں دستیاب ہے۔ اِسی طرح ٹماٹر فی کلو ”80روپے“ سے 180 تک۔ (کالم چھپنے تک معلوم نہیں قیمتیں کہاں جا پہنچیں )۔ ”60 روپے میں ملنے والا ”لیموں“ 200 کی برکت سمیٹ رہا ہے۔ یہ بات تھی سستے بازاروں کی۔اوپن مارکیٹ میں سبزیوں کی قیمتوں میں 50سے 100روپے تک اضافہ ہوچکا ہے اور گراف بڑھ رہا ہے۔ یہ ہے ہماری مسلمانی حالت۔ ”فلسطین “ کے غم میں گ±ھلنے والے۔یہاں کوس برابر فاصلے پر رہنے والوں کو رتی بھر ریلیف دینے میں مکمل پتھر، ب±ت مانند ہیں۔
معلوم نہیں خبر ہے یا سچ۔ حکومت ملک بھر میں ”گھی“ کی قلت روکنے کے لیے ”این ایچ اے“ کو گھی ٹینکرز کے لیئے دو ماہ تک وزن کی چھوٹ کے احکامات صادر کر رہی ہے۔ گزشتہ 6روز سے ”گھی تیل“ کی سپلائی ملوں تک رکی ہوئی ہے۔ جب سے ”این ایچ اے اور موٹر وے پولیس“ نے ”10ویلرز“ آئل ٹینکر کو ”15ٹن“ وزن کا پابند کیا ہے گھی سپلائی شدید طور سے متاثر ہے۔ آئے روز شاہرات پر آئل ٹینکرز ا±لٹنے جیسے سانحات بڑھنے کے تناظر میں فیصلہ بالکل جائز ہے پر ”رمضان المبارک“ میں عوام کو متوقع پریشانیوں سے بچانے کی خاطر فوری طور پر سب کے لیئے قابل قبول پالیسی بنا لیں۔ ایسی پالیسی کہ مستقبل میں مزید حادثات سے محفوظ رہا جاسکے۔ کبھی پورا مہینہ آرام میں ”عافیت کدہ“ میں گزر جاتا ہے جان بوجھ کر یا ارادی طور پر گریز کرتی ہوں اور کبھی اتنی مصروفیت ہوتی ہے کہ ایک ہی دن میں ”2-3مختلف اداروں“ کے وزٹ۔ ہر جگہ وہی طویل بریفینگز۔ خوش آمدیدی۔ تصنع بناوٹ سے پ±ر کلمات۔وہ کام بھی نیکیاں بنا کر لوگوں کے کھاتہ میں ڈال دئیے جاتے ہیں جو ا±س نے کیے ہی نہیں ہوتے۔ سچ ہے کہ سچ کا غلبہ ہو کر رہتا ہے۔ سچ ہے کہ خوشامدی لوگوں کی خوشامد خودبخود ا±ن کے لیے زہر بن کر ا±نھی کو ڈس لیتی ہے سچ ہے کہ ”چمچ پورے برتن کو خالی کر دیتا ہے“۔ ایسے الفاظ کہ سماعت وقت یقینی تصویر دِکھائی دے رہی ہوتی ہے کہ ”جنت الفردوس“ میں فروکش ہوں دوسرے پل دل زمین پر پٹخ دیتا ہے کہ نہیں تم لوگ ابھی فانی دنیا کا حصہ ہو۔ عارضی سرائے کے مکین ہوں۔ تمھارا اعمال نامہ تمھارے سامنے بھی مکمل نہیں۔ خاموشی ہے تو بے ساختہ زبان اِس د±عا کو دہرانے لگتی ہے کہ ”رب کریم “ ہمارے عیبوں۔ گناہوں پر پردے ڈال دے آمین۔
 چاہے کِسی پروگرام یا تقریب کا وقت صرف آدھا گھنٹہ ہو چائے یا کھانے کے لوازمات لازمی مشق قرار پا چکے ہیں۔ ضروری ہے کہ ”انسان“ ہر جگہ ہر وقت کھاتا رہے اور کھاتا ہوا نظر آئے ؟؟؟ سوچئیے ان تعیشات پر کتنا ”روپیہ“ ضائع ہوتا ہے اور سب سے ضروری امر جو لائق توجہ ہے وہ ہے ”وقت“ ہم سب کی زندگی کا قیمتی اور اہم ترین اثاثہ۔ ا±س کا شمار ممکن نہیں۔ جو وقت کی قدر نہیں کرتے وہ ”قوم“ نہیں ”بِھیٹر“ بن جاتے ہیں تاریخ سب سے بڑی گواہ ہے اِس حقیقت کی۔
سچ یہ ہے کہ مدعوئین بالخصوص ”مہمان خصوصی“ کی تو واقعی زیرہ برابر دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ ا±س نے دن بھر درجن تقاریب میں شرکت کرنا ہوتی ہے۔ تقاریر میں کوئی لگن نہیں ظاہر کرتا ہر ایک کا صرف اپنی ذات پر دماغ۔ دل فوکس رہتا ہے جب اپنی ”پروجیکش‘ کی طمع انسانی سر پر حاوی ہو تو پھر سب کاروائیاں۔ کارنامے لا حاصل رہ جاتے ہیں تو ایسے میں با مقصد نتائج۔ مفید ثمرات کا حصول کیونکر ممکن ہو سکتا ہے ؟؟
ہم جب کوئی انٹرویو دیتے ہیں یا خبر پر رائے دینے کے لیے نظر آرہے ہوں تو پس منظر میں قطار میں انعامی شیلڈز۔ تعریفی سر ٹیفیکٹس۔ جیتے ہوئے” کپ“ نظر آرہے ہوتے ہیں جو کہ انٹرویو کنندہ کی اعلیٰ علمی مہارت۔ قابلیت اور دینے والوں کی طرف سے اعتراف خدمات کی عکاسی کرتے ہیں اور گفتگو بھی ہماری بے انتہا مدلل۔ لہجہ شائستہ۔ زبان دھیمی۔ کیا اصل زندگی میں یہ صورت میچ کرتی ہے ؟؟ اگر جواب میں ہاں ہے تو پھر ہمارے معاشرے۔ وطن کی موجودہ بگڑی صورت کیوں ہے ؟؟ ہمارے قول۔ فعل میں اگر تضاد نہ ہوتا تو آج ہم ایک ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے وکٹری سٹینڈ پر کھڑے ہوتے۔

ای پیپر دی نیشن