روزہ انسان کیلئے ذہنی بیماریوں سے نجات کا ذریعہ

 ڈاکٹر محمد صدیق خان قادری
روزہ اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ یہ ضبط نفس کی بے مثال تربیت دیتا ہے۔ روزہ تزکیہ نفوس اور تطہیر قلوب میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے یقین و ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ یقین جو اعلیٰ کردار کا جوہر اور بہترین اعمال کا ضامن ہے اور وہ پختہ ایمان جوروحانی بلندی، اخلاقی اصلاح، ذہنی صحت اور جسمانی تندرستی کا ذریعہ ہے۔ یہ یقین اور ایمان ہی ہے جو انسان کو ذہنی بیماریوں ،نفسیاتی الجھنوں اور دیگر تمام پریشانیوں سے نجات دلاتا ہے۔ روزے سے روحانی قوتیں اور ذہنی صلاحیتیں بڑی خوبی اور تیزی کے ساتھ نشوونما پاتی ہیں۔ اس طرح روزہ انسان کی قوت برداشت، قوت ارادی اور قوت مدافعت کو ترقی دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ وہ قوتیں اور صلا حیتیں ہیں جو انسان کی مجموعی شخصیت، ذہنی اور جسمانی صحت کو بحال رکھتی ہیں۔ سماجی طور پر بھی روزے دار بہت سے فوائد حاصل کرتا ہے۔ وہ پہلے کے مقابلے میں دوسرے لوگوں سے خود کو زیادہ قریب محسوس کرتا ہے۔ اس طرح تمام روزے داروں میں جذباتی موانست اور محبت کی فضاء پیدا ہوجاتی ہے۔ 
ایک صحت مند انسان پر روزے کا کوئی نقصان دہ اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی جسمانی نظام میں کوئی خرابی یا کمزوری پیدا ہوتی ہے۔روزہ رکھنے سے اگرچہ دو کھانوں کے درمیان وقفہ معمول سے کچھ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن 24گھنٹوں کے دوران مجموعی طور پر جسم کو اتنے ہی حرارے یا کیلوریز حاصل ہوتے ہیں اور اتنی ہی مقدار میں پانی اور دیگر سیال اجزاء  پہنچ جاتے ہیں۔ جتنے عام دنوں میں پہنچتے ہیں۔کم کھانے سے دماغ اور اعصاب کے افعال اصلاح پذیر ہوجاتے ہیں۔ 
روزہ فاقہ نہیں، لیکن کھانے پینے میں ایک وقفہ ضرور ہے۔ فاقہ انسان کی ایک طبعی اور جبلی ضرورت ہے۔ اکثر اوقات انسانوں کے علاوہ حیوانوں کو بھی بعض امراض میں غذا کی طرف رغبت نہیں رہتی اور بعض امراض میں تو غذا کا تصور بھی انسان کو ناگوار ہوتا ہے۔ روزے میں کھانے پینے کا وقفہ جسم کو فاسد مادوں سے پاک اور خون کو صاف کرتا ہے، جس سے زہریلے مادے بننے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ روزہ، روزہ دار میں حرص اور مرض دونوں سے مقابلے کی قوت پیدا کرتا ہے اور جسمانی نظام اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کرکے بیماری کے مقابلے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ مسلمان ہر سال پورا ایک ماہ تزکیہ نفس اور جسم کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ ان میں ضبط نفس ، صبر و نظم اور تحمل و برداشت کی عاد ت پیدا ہوتی ہے۔ ماہ صیام میں پابندی اوقات کی بے مثال تربیت پیدا ہوتی ہے۔ اطباء￿  اورسائنس دانوں کا اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ مقررہ اوقات پر کھانا صحت کی ضمانت ہے۔ اس سے جسمانی نظام جو تغذیہ حاصل کرتا ہے ،وہ بے وقت کھانے سے ممکن نہیں۔ 
روزہ رکھنے میں بھی انسان کا ہی فائدہ ہے۔ اس لیے اس کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج ترقی یافتہ ممالک میں کھانے پینے کی ہر چیز پر لکھاہوتا ہے کہ اس میں کیلوریز، کولیسٹرول ، چکنائی (FAT)، شکر، کاربوہائیڈریٹ اور معدنیات وغیرہ کی کتنی مقدار موجود ہے، لوگ ان چیزوں کو خریدتے وقت دیکھتے ہیں کہ کہیں ان میں چکنائی ، کولیسٹرول یا شکر وغیرہ زیادہ تو نہیں کیونکہ زیادہ چکنائی، کولیسٹرول یا شکروالی چیزوں کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ 
ہم 11ماہ تک بغیر کسی پرہیز اور ممانعت کے دن میں تین مرتبہ کھانا کھاتے ہیں جس میں ہرقسم کی مرغن غذائیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ جو چکنائی کولیسٹرول، شکر اور کاربوہائیڈریٹ وغیرہ سے بھرپور ہوتی ہیں اس طرح زائد چکنائی جسم کے اندر جمع ہوجاتی ہے اور اگر یہ چکنائی مستقل اور مسلسل جسم میں جمع ہوتی رہے تو اس سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔خون کی نالیوں میں چکنائی جمع ہوجانے کی وجہ سے بلڈپریشر اور دل کی نالیوں میں چکنائی جمع ہونے سے دل کا مرض لاحق ہوجاتا ہے، گیارہ ماہ تک جو زائد چکنائی (FAT) وغیرہ ہمارے جسم میں جمع ہوجاتی ہے۔ وہ مضر صحت ہوتی ہے اور اس کی صفائی کے لیے ایک ماہ کے روزے رکھنے کا حکم ہے۔ روزے کی حالت میں جب پیٹ خالی ہوگا تو جسم توانائی حاصل کرنے کے لیے اپنے اندر جمع شدہ یہ زائد چکنائی استعمال کرے گا اور اس طرح اگر ایک ماہ تک روزانہ انسان کا پیٹ خالی رہے تو 11ماہ تک جسم میں جمع ہونے والی زائد چکنائی (FAT) توانائی کے لیے استعمال ہوکر پگھل جائے گی اور انسان اس مضر صحت چکنائی سے چھٹکارا حاصل کرلے گا۔ یہاں غور کیا جائے تو روزے رکھنے میں انسان کا ہی فائدہ ہے۔ تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ روزے کے مقصد کی اصل روح کو سمجھ کر روزہ رکھا جائے ،مگر ہم ایسا نہیں کرتے ،ہمارے مذہبی رہنمائوں کا فرض ہے کہ وہ ہمیں روزے کی اصل روح سے روشناس کرائیں۔اس سے عدم واقفیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم سحری میں بھی خوب مرغن غذائیں کھاتے ہیں اور افطار میں بھی ہر طرح کے مرغن پکوان کھاتے ہیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں جسم کے اندر موجود زائد چکنائی (FAT) سے روزے کے ذریعے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ پیٹ بھر کے مرغن غذائیں کھانے سے تو جسم میں چکنائی (FAT) مزید بڑھے گی۔ روزے کے دوران حکم ہے کہ جھوٹ نہ بولو، کسی سے جھگڑا نہ کرو، کسی کو گالی نہ دو، نیک کام کرو، دوسروں کی مدد کرو وغیرہ وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ جب رمضان میں بری عادات سے انسان پرہیز کرے گا تو ایک ماہ میں ان بری چیزوں سے بچنا انسان کی عادت بن جائے گی جو 11 ماہ تک برقرار رہے گی،جسکے روزہ دار کی صحت اور مزاج پر بھی مثبت  ٓاثرات مرتب ہوں گے جس کے نتیجے میں معاشرہ میں سماجی برائیوں کا خاتمہ ہوگا اور معاشرہ پرسکون ،فلاحی اور اسلامی معاشرہ بن جائے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن