بند آنکھ کئے ’کانِ جواہر‘ میںکھڑا ہُوں!

پاکستان کے وزیر خارجہ کے طور پر کام کرتے کرتے جناب خورشید محمود قصوری تھک ہار کر قاف قیادت کی چوٹی سر کر لینے والے رہنماﺅں کی صف میں ’ماہر امور خارجہ‘ کے طور پر مقام متعین کرکے بیٹھ رہے ہیں! یہ ایک ذرا طویل عمل ہے اور ابھی تک مکمل نہیں ہو پایا ہے کیونکہ جناب خورشید محمود قصوری اٹھنے کی نسبت بیٹھنے میں زیادہ دقت محسوس کرتے ہیں، کیونکہ انہیں ’بیٹھنے‘ اور ’گر پڑنے‘ میں فرق کرنا آ گیا ہے! لہٰذا کسی کے قدموں میں بیٹھ رہنا، انہیں بھی کسی کے قدموں میں گر پڑنے سے ’بہتر‘ لگنے لگا ہے! صدر آصف علی زرداری روس کے دورے سے لوٹیں گے تو پتہ چلے گا کہ حالات میں کوئی ’مثبت‘ تبدیلی جنم لینے والی ہے؟ یا، نہیں؟ مگر جناب خورشید محمود قصوری نے ابھی سے پاک۔روس تعلقات میں بہتری کی بنیاد جناب پرویز مشرف کے نام منسوب کر دی ہے، جناب خیال امروہوی نے کیا خوب کہہ رکھا تھا:۔ ....
دیوار کی ہر اینٹ پہ لکھا تھا مرا نام
تعمیر مگر آپ سے منسوب ہوئی ہے
جناب خورشید محمود قصوری نے پاک۔روس تعلقات کے ساتھ ساتھ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان ’رابطے‘ کی پچاس سالہ تاریخ بھی کھود نکالی ہے اور ماضی کے ایک وزیر خارجہ کی اسرائیلی حکام سے ملاقات کی داستان بھی سنا ڈالی حتیٰ کہ اسے بھی جناب پرویز مشرف کے کھاتے چڑھانے کے لئے یہ اعتراف بھی کر ڈالا کہ انہوں نے بھی اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی! ’اسرائیلی وزیر خارجہ کا خیال تھا کہ ہم انہیں تسلیم کر لیں گے! لیکن جب میں نے انہیں بتایا کہ اگر وہ فلسطین کی آزاد اور خودمختار ریاست کو تسلیم کر لیں، جس کا دارالخلافہ ’بیت المقدس‘ ہو تو ہم بھی عبداللہ پلان کے مطابق انہیں تسلیم کر لیں گے، تو، ان کا منہ لٹک گیا، کیونکہ مجھے وہاں بڑے ڈرامائی انداز میں بھیجا گیا تھا!‘
جناب پرویز مشرف نے اس سے بھی زیادہ ڈرامائی انداز اختیار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر انہیں دوبارہ برسراقتدار آنے کا موقع بہم فرمایا گیا تو وہ وہی کچھ نئے سرے سے کرنا شروع کر دیں گے، جس کا نظارہ یہ بے بس قوم اب تک پوری بے کسی کے ساتھ کرتی رہی ہے!
یہ ’اگر‘ اتنا بڑا ’اگر‘ ہے کہ اسے ’اگرمچھ‘ کہہ لینے میں بھی کوئی ہرج نہیں پھر بھی جناب پرویز مشرف نے قوم کے سامنے اپنا عاجزانہ اور منکسرانہ لہجہ برقرار رکھتے ہوئے اسے ’اگر‘ کہہ کر ہی مخالف فرمایا! ہم ان کی اس مہربانی پر ان کا جتنا شکریہ ادا کریں کم ہے!
جناب پرویز مشرف کے برسراقتدار آنے کا سب سے آسان راستہ ’سینٹ‘ سے ہو کر گزرتا ہے! سینٹ کی ’آدھی نشستیں‘ انتخابی عمل سے گزرنے والی ہیں! قاف قیادت خالی پڑا ہے! لہٰذا قاف قیادت ان کے لئے کسی ایک سیٹ پر ’کامیابی‘ یقینی بنا سکتی ہے اور پھر وہ ’صدر‘ منتخب یا، وزیراعظم ’نامزد‘ کئے جا سکتے ہیں! لیکن ہمیں یہ راستہ بھی دشواریوں سے پر نظر آ رہا ہے! لہٰذا، یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہوتا جا رہا ہے کہ انہیں دوبارہ برسراقتدار لانے کی ’یقین دہانی‘ کون کروا رہا ہے؟ ان کا لب و لہجہ آج بھی اس شائستگی سے خالی ہے، جسے ایک سابق ’صدر‘ یا ایک سابق ’چیف آف دی آرمی سٹاف‘ کے شایان شان کہا جا سکے!
پاکستان ایک بحرانی دور سے گزر رہا ہے اور پاکستان کے ’لندن نشین‘ زعماءکا طرز عمل ہو؟ یا، گجرات میں ’بوریا نشین‘ قلندوں کا طرز گفتگو ہو؟ کوئی موجودہ صورتِ حالات سے مطابقت رکھتا دکھائی نہیں دے رہا! ایسے میں پاسنگ آﺅٹ کے بعد گھر جانے والے اہلکاروں پر پے در پے دو خودکش حملوں کے پیچھے کارفرما ہاتھ تک پہنچنا کتنا ضروری ہو گیا ہے؟ اس کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں! لہٰذا، چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویزالٰہی کی بات پر دھیان دینا بھی ضروری ہے! جناب نواز شریف کا تو ہر لفظ ’کانِ جواہر‘ ہے! یہ تو اب ادارہ جاتی قیادت کا کام ہے کہ وہ ان الفاظ کی ’روح‘ سامنے رکھے اور اس کے ظاہری پیکر کے خدوحال سے نہ الجھے کیونکہ، ’منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں!‘
رہ گئے ذرائع ابلاغ تو ان کا حال سب پر واضح ہے!
جناب خورشید رضوی نے شاید اسی تناظر میں کہہ رکھا ہے....
بند آنکھ کئے کانِ جواہر میں کھڑا ہوں
گوہر مجھے یاد آتے ہیں گنجینے کے اپنے
بات سیدھی سی ہے مگر ذرائع ابلاغ اسے اُلجھا دینے پر مُصِر ہیں کہ یہ تو ....ع
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تُو چاہے
کی چلتی پھرتی تصویریں ہیں! اور ایسی چلتی پھرتی تصویریں ایک زمانے میں ’فلم‘ کہلایا کرتی تھیں! اور ہم سب یہ ’فلم‘ کئی بار ’دیکھ‘ بلکہ ’رَٹ‘ چکے ہیں، ورڈ ٹو ورڈ، سین ٹو سین، شاٹ ٹو شاٹ!
اگر ’قوت‘ ہی ’دلیل‘ بننا ہے تو دنیا ’قوت آزماﺅں کا گھر‘ ہے، بھلے سے بھلا موجود ہے! یہ بھلے مانس لوگ تو اپنے بھی ہیں اور ’غیروں‘ سے بہتر بھی! لہٰذا ہمیں ان کے آگے سے ہٹ جانا چاہئے، کچھ دن اِن کے پیچھے چل کر دیکھیں، سربلندی ہماری منتظر ہے!

ای پیپر دی نیشن