ضلع سرگودھا میں پیر حسنات ووٹوں کے تناسب میں اول جبکہ نوازشریف دوم

May 15, 2013

 فیصل رضا ........ سرگودھا
سرگودھا کے پانچ قومی اور گیارہ صوبائی حلقوں میںانتخابات مکمل ہو چکے ہیںقومی اسمبلی کی پانچوںجبکہ صوبائی اسمبلی کی 8سیٹوں پر مسلم لیگ ن کے امیدوار کامیاب ہوئے صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر مسلم لیگ ق کے چوہدری عامر سلطان چیمہ ‘ دوسری پر آزاد امیدوار چوہدری فیصل جاوید گھمن اور تیسری سیٹ پر آزاد امیدوار سردار بہادر خان میکن نے کامیابی حاصل کی ۔ اب ان حلقوں کی الگ الگ پوزیشن اور جیتنے والے امیدواروں کے بارے میں اپنے قارئین کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں سرگودھا کے سب سے اہم حلقے این اے68میں جہاں پر مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف خود الیکشن لڑ رہے تھے اس حلقہ میں برادریوں کے ساتھ ساتھ مذہبی عنصر بھی پایا جاتا ہے لیکن مسلم لیگ ن کے ووٹرز نے پوری محنت اور لگن کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنے قائد میاں نواز شریف کو اس حلقہ سے ایک لاکھ 40ہزار 546ووٹ دلوائے ان کے مد مقابل کوئی بھی امیدوار خاطر خواہ ووٹ حاصل نہ کر سکا دوسرا اہم حلقہ این اے67ہے جہاں پر چوہدری انور علی چیمہ جو گزشتہ سات الیکشنوں میں بھر پور کامیابی حاصل کرنے والے ملک کے واحد سیاست دان ہیں انہوںنے مسلم لیگ ق کی طر ف سے الیکشن میں حصہ لیا لیکن انہیں بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ان کے مد مقابل ڈاکٹر ذوالفقار علی بھٹی ایک لاکھ8ہزار920ووٹ لیکر کامیاب ہوئے اسی طرح سے سرگودھا شہر کے حلقہ این اے66میں پی پی پی کے سابق وزیر مملکت تسنیم احمد قریشی کو شکست کا سامنا کرناپڑاان کے مد مقابل مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری حامد حمید نے ایک لاکھ32ہزار 668ووٹ حاصل کیے ۔ جبکہ سرگودھا کے حلقہ این اے64میں ایک طویل عرصہ کے بعد پیر خاندان سے تعلق رکھنے والے پیر امین الحسنات شاہ کو کامیابی حاصل ہوئی جنہوںنے اپنے مد مقابل پی پی پی کے ندیم افضل گوندل کے مقابلہ میں ایک لاکھ56ہزار 709ووٹ لیکر سرگودھا میں قومی اسمبلی کے امیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ۔ سرگودھا میں ہارے والوں میں چار اہم عہدوں پر تعینات رہے ان میں ندیم افضل گوندل چیئر مین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی رہے چوہدری انور علی چیمہ وفاقی وزیر پیدوار ‘غیاث احمد میلہ جنہیں این اے65سے محسن شاہ نواز رانجھا نے شکست دی غیاث احمد میلہ وزیر مملکت برائے ہیومن ریسورس جبکہ تسنیم احمد قریشی وزیر مملکت برائے پانی وبجلی تعینات رہے ان چار اہم عہدوں پر تعینات سیاست دانوں کی شکست زبان زد عام ہے اور لوگ ان کے ہارنے کی وجاہت میں جہاں ملکی صورتحال اور سیاسی ماحول بتاتے ہیں وہیں پر ان کیطرف سے عوام کے ساتھ رابطہ اور عوام کے مفاد کیلئے کیے جانے والے کام بھی ہیں اگر انہوںنے اپنے اقتدار میں عوام کے ساتھ بہتر رویہ کے ساتھ ساتھ ملک میں کرپشن اور لوٹمار کو روکنے کیلئے کردار ادا کیا ہوتا تو ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑا ۔ سرگودھا کے صوبائی حلقوں میں بھی پی پی پی کے تمام امیدوار وں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا کچھ لوگ پی پی پی کی صورتحال کو بھانپتے ہوئے پہلے سے ہی پیپلزپارٹی چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہو چکے تھے ان میں کامل شمیل گجر ‘ڈاکٹر ذوالفقار بھٹی ‘رانا منور غوث ‘ڈاکٹر نادیہ عزیز ‘غلام دستگیر لک وغیرہ شامل ہیں ان لوگوں نے ایک طویل کوشش کے بعد کامیابی حاصل کی ان میں سب سے زیادہ کوشش ڈاکٹر ذوالفقار علی بھٹی کی تھی جنہوںنے ان تمام لوگوں کو اپنے ساتھ مسلم لیگ ن میں لیجا کر قیادت کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ مخالف امیدواروں کو ہر صورت مات دینگے ۔ ن لیگی قیادت نے ان کے جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے انہیں ٹکٹ دیئے تو ان لوگوں نے انہونی کو ہونی کر دیکھایا ۔ سرگودھا کے حلقہ پی پی28سے ڈاکٹر مختار بھرتھ نے 57ہزار997و وٹ ‘حلقہ پی پی 29سے غلام دستگیر لک نے 47ہزار 426حلقہ پی پی 30سے طاہر سندھو نے 37ہزار431حلقہ پی پی 31سے میاں مناظر علی رانجھا نے29ہزار622حلقہ پی پی 32سے مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے چوہدری عامر سلطان چیمہ نے چھٹی بار میدان مار لیا اور54ہزار998ووٹ حاصل کیے حلقہ پی پی 33سے عبد الرزاق ڈھلوں نے 58ہزار442حلقہ پی پی 34سے ڈاکٹر نادیہ عزیز نے33ہزار744ووٹ پی پی 35سے آزاد امیدوار فیصل فاروق چیمہ نے 41ہزار 789ووٹ لیکر مسلم لیگ ن کے کامل شمیل گجر کو شکست دیدی اور جیتنے کے بعد فیصل فاروق چیمہ نے بھی ن لیگ کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے ۔ پی پی36سے مسلم لیگ ن کے رانا منور غوث نے 33ہزار453ووٹ پی پی 37سے صاحبزادہ غلام نظام الدین سیالوی نے 54ہزار846ووٹ حاصل کیے جبکہ حلقہ این اے38سے آزاد امیدوار سرداربہادر خان میکن نے 39ہزار194ووٹ حاصل کرکے اپنے مد مقابل مسلم لیگ ن کے منیر قریشی کو بد ترین شکست دیدی۔ اب ضلع کی لیگی قیادت تو مطمین ہے لیکن پی پی پی ‘تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی قیادت نے ضلع میں ہارنے کی وجوہات کا جائزہ لینے کیلئے اپنے اپنے عہدیداروں کو اجلاس طلب کیا ہے جس کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اپنے اپنے امیدواروں کی طرف سے عوامی رابطہ کے فقدان سمیت دیگر امور کے بارے میں بحث کی جا رہی ہے ۔

مزیدخبریں