گیارہ مئی بھی گزر گئی۔ بہت سارے خدشات موجود تھے مگر گیارہ مئی کو انتخابات ہوئے، عوام نے بھرپور اندازمیں ان میں شرکت کی اور بالآخر ملک اور قوم کی فتح کا مرحلہ فیض یاب ہو گیا۔ انتخابات سے پہلے ایسے خدشات ہر سو موجود تھے کہ غیرجمہوری طاقتیں انتخابات نہیں ہونے دیں گی لیکن نہ صرف گیارہ مئی روز انتخاب ٹھہرا بلکہ اس روز 1970ءکی تاریخ ایک مرتبہ پھر ووٹوں کے بھاری شرح تناسب کے اعتبار سے دہرائی گئی۔ گیارہ مئی کے روز پولنگ سٹیشنوں پر عوام کی بہت بڑی تعداد اور نوجوان جوق در جوق اپنے ووٹ کو کاسٹ کرتے نظر آئے۔ اب تو انتخابات کے بعد مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کے لئے جوڑ توڑ کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ سب سے بیتاب جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن ہیں اور وہ صوبہ خیبر پی کے میں پاکستان تحریک انصاف کی بھاری اکثریت سے برتری پر ہر حال میں جوڑ توڑ کے ذریعے اور اپنے غیرنظریاتی حربوں کے ذریعے اس صوبے میں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے لیکن پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے اتحاد کر کے مولانا کا خواب خاک میں ملا دیا۔انتخابات بروقت انعقاد پذیر ہوئے اور ان انتخابات میں جمہوریت کو مزید تقویت اور مضبوطی حاصل ہوئی، اس کا تمام تر سہرا آزاد عدلیہ کو جاتا ہے جس نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کی ٹھان رکھی ہے اور آزاد عدلیہ کے اسی کردار کی بدولت کوئی تیسری قوت جمہوری عمل میں مداخلت کی جرات نہیں کر سکی۔ کوئی سیاسی جماعت جتنا مرضی کہے کہ اس نے وطن عزیز کی تاریخ میں مفاہمت کی سیاست کو رواج دے کر جمہوریت کے پانچ سال مکمل کئے اور کوئی سیاسی جماعت چاہے جتنا بھی فرینڈلی اپوزیشن کا دھبہ دھونے کے لئے کہتی رہے کہ اس نے جمہوریت کی مضبوطی کے لئے سابقہ حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے دیئے اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت نے اپنے پانچ سال سابقہ حکومت کی تمام تر کوتاہیوں اور عوام دشمن پالیسیوں کے باوجود آزاد عدلیہ کی جرات رند انہ کے سائے میں مکمل کئے ہیں اور یہ آزاد عدلیہ کے سر ہی سہرا جاتا ہے کہ وطن عزیز میں الیکشن کمیشن نے پہلی مرتبہ ملک کی تاریخ کا سب سے سخت ترین انتخابی ضابطہ اخلاق مرتب کیا اور پھر الیکشن کمیشن اس پر بڑھکیں لگاتا رہا۔ حتیٰ کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر بہت سارے امیدواروں کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد تمام کے تمام امیدوار نہ صرف انتخابی میدان میں اترے بلکہ انہوں نے انتخابات میں حصہ بھی لیا اور ان میں سے بہت سارے آلودہ چہرے ایک مرتبہ پھر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ گیارہ مئی کو دھاندلی ہوئی یا نہیں اس سے قطع نظر الیکشن کمیشن، سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے روایتی حربوں کے آگے مکمل طور پر بے بس نظر آیا۔ الیکشن کمیشن کے تمام تر دعوے اوربڑھکیں محض میڈیا کی زینت سے زیادہ ثابت نہ ہو سکے حالانکہ الیکشن کمیشن کو فوج، رینجرز اور پولیس کی جس قدر معاونت حالیہ انتخابات میں حاصل رہی اس کی نظیر بھی شاید ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کراچی کے بیشتر پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ ہی نہ ہونے دی گئی۔ لوگ بھاری تعداد میں باہر کھڑے رہے۔ بیشتر پولنگ سٹیشنز پر انتخابی مواد یعنی بیلٹ بکس اور بیلٹ پیپر ہی نہ پہنچ سکے اس پر فخرو بھائی کیا تبصرہ کریں گے۔ کیا کراچی میں چھ قومی اسمبلی کے حلقوں میں انتخابات ملتوی کروا دینے سے ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے؟۔ انتخابات آئے اور گزر گئے۔ مسلم لیگ(ن) نے واضح برتری حاصل کر لی ہے۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) نے 125 سیٹیں حاصل کی ہیں۔ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 31نشستوں جبکہ 31 آزاد ارکان بھی کامیاب ٹھہرے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) نے صوبائی اسمبلی کی 204نشستیں حاصل کی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی 32 نشستیں حاصل کی ہیں۔ اب مسلم لیگ(ن) قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا قائم ہونا یقینی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے کارکنان ملک بھر میں اپنی کامیابی پر جشن منا رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ دھاندلی کے ثبوت موجود ہیں ہار جیت بہت دیکھی، نوجوانوں کے جنون سے ہار کی تکلیف ختم ہو گئی۔ اب کوئی طاقت تبدیلی کا رخ نہیں موڑ سکتی۔ تحریک انصاف کا سونامی پنجاب میں داخل نہیں ہو سکا مگر اے این پی کے غلام احمد بلور کہتے ہیں کہ کھلاڑی کا سونامی صوبہ خیبر پی کے میں آ چکا ہے۔ تحریک انصاف کے حوالے سے خوش آئند بات یہ رہی کہ حالیہ انتخابات میں جہاں ووٹنگ کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ سامنے آیا وہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد سیاسی انتخابی اور حکومتی سیٹ اپ میں دلچسپی لے کر پولنگ سٹیشنوں پر اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کرنے پہنچی، یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ ہماری نوجوان نسل کا پڑھا لکھا طبقہ بھی سیاسی انتخابی اور حکومتی معاملات میں دلچسپی لینے لگا ہے۔ گو تحریک انصاف نے پنجاب میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کی مگر پھر بھی اسے تحریک انصاف کی ناکامی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خود مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کر چکے ہیں کہ تحریک انصاف نے سیاسی طور پر پیپلزپارٹی کی جگہ حاصل کر لی ہے۔ تحریک انصاف نے پنجاب میں دوسرے نمبر پر ووٹ حاصل کئے ہیں۔ حیران کن امر ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار ہزاروں ووٹ لے کر شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف نے یقینا عوامی سطح پر اپنا ووٹ بینک بنا لیا ہے۔ آئندہ مرکز میں قرین امکان ہے کہ تحریک انصاف اپوزیشن جماعت کے طور پر ابھرنے والی ہے۔ عمران خان اعلان کر چکے ہیں کہ بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد بھی قومی اسمبلی میں پہنچ گئے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ میں اکیلا اسمبلی میں پہنچ گیا تو پھر ہروقت دمادم مست قلندر کروں اور کروا¶ں گا۔ اب دیکھتے ہیں وہ اسمبلی میں پہنچے ہیں تو کیا گل کھلاتے ہیں۔ ایک دلیر آدمی اور باغی جاوید ہاشمی بھی اسمبلی میں پہنچ گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی بھی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی اسمبلی میں پہنچ گئے ہیں۔ آئندہ تحریک انصاف اپوزیشن جماعت ڈکلیئر ہو یا نہ ہو اتنا طے ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں عمران خان کی قیادت میں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔ جاوید ہاشی، شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید ان کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ آئندہ سیاست کا رخ مرکزمیں قومی اسمبلی سے تعین ہو گا۔ عمران خان کیسی اپوزیشن کرتے ہیں اس کا فیصلہ تو گیارہ مئی سے پہلے تحریک انصاف کی انتخابی مہم نے فراہم کر دیا ہے اب مسلم لیگ(ن) کو اپنے انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کو ہر حال میں پورا کرنا پڑے گا۔ چاہے وہ اسے پورا کر کے خود کریڈٹ لیں یا پھر اپوزیشن بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کر کے اس کا کریڈٹ لیتے ہوئے آئندہ کے لئے اپنی ملک گیر کامیابی کو یقینی بنائے گی۔ عمران خان نے پہلی سیاسی اننگز کھیل لی ہے اور اگلی اننگز کے لئے انہیں بھرپور جدوجہد کرنا ہو گی۔ مسلم لیگ(ن) اور اس کے نومنتخب اراکین کو کامیابی مبارک ہو!۔