آج پاکستان اس مقام پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے، جہاں امریکہ بھی اسے ایک مضبوط جمہوری ریاست قرار دینے پر مجبور ہو گیا۔ دنیا بھر کا میڈیا پاکستان میں الیکشن کی مثبت تصویر پیش کر رہا ہے۔ پاکستانی عوام کے حق رائے دہی کو خراج تحسین پیش کیا جا رہاہے۔ بحیثیت جمہوری مملکت پاکستان بھی بھارت اور امریکہ کی صف میں شمار ہونے لگا ہے۔ پاکستان میں11 مئی 2013کے تاریخی انتخابات میں میاں محمد نواز شریف دنیا کی بڑی اسلامی ریاست کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہو ئے ہیں اور پاکستان دنیا کی پانچویں بڑی جمہوری ریاست قرار پائی ہے۔ میاں نواز شریف کی حیران کن کامیابی نے تمام مفروضوں، تجزیوں اور پیشگوئیوں کو مسترد کر دیا۔ حیرانی کی بڑی وجہ ”سونامی“ کی گمنامی ہے اور اس کا سبب دھاندلی نہیں بلکہ” زرداری فوبیا“ ہے۔ زرداری ٹولے کے پانچ سالہ اذیت ناک دور نے عوام کو حقائق اور جذبات میں تمیز سکھا دی ہے۔ اس بار عوام نے رسک نہیںلیا اور اکثریت نے جوش کی بجائے ہوش سے کام لیا۔ میاں محمد نواز شریف کے ووٹ بینک کو نظر انداز کرنے والوں نے اپنے لوگوں کو گمراہ کیاالبتہ ہوشمندوں کو علم تھا کہ میاں نواز شریف کو ”شکست فاش“ دینا آسان نہیں البتہ سونامی کی حمایت سے ووٹ تقسیم ہونے کا اندیشہ تھا جس کے رد عمل میں زرداری ٹولے کے دوبارہ آنے کا امکان تھا۔ اوریہ وہ خوف تھا جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت نے شیر پر ٹھپہ لگایا۔ میاں محمد نواز شریف کو بھی اتنی واضح جیت کا یقین نہ تھا ۔ عوام نے زرداری مخالف جذبات کا اظہار ووٹ کی صورت میں کر دیا ۔ الیکشن کے دوران چھوٹے موٹے پیمانے پر دھاندلی ہوتی رہی ہے اورآئیندہ بھی ہوتی رہے گی مگر جس پیمانے پر مسلم لیگ نون کوکامیابی حاصل ہوئی ہے، اسے اللہ کا فیصلہ سمجھا جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلے الیکشن ہیں جنہوں نے پاکستان کو دنیا بھر میں عزت بخشی ہے اورپاکستان ایک مضبوط جمہوری ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ ایک جمہوری حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے میں میاں نواز شریف نے اہم کردار ادا کیا ۔ انہیں فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ ملتا رہا مگر انہوں نے جمہوریت کو شب خون سے بچانے کے لئے ایک بد صورت جمہوریت کو ترجیح دی۔ دنیا بھر کے حکمرانوں نے نواز شریف کو مبارکباد دی پاکستان کے صدر نے بھی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مبارکباد دی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہواہے کہ عوام نے دل کی بجائے دماغ سے کام لیا اور ووٹوں کی تقسیم کے خدشے کو مسترد کر دیا۔ تمام تر خامیوں اور ناکامیوں کے باوجود پیپلز پارٹی نے پانچ سال مکمل کئے جس کی وجہ نواز شریف کا جمہوری انداز تھا مگر کیا نواز شریف بھی پانچ سال مکمل کر سکیں گے؟ جمہوریت کی کامیابی کے لئے حزب اختلاف کا جمہوری ہونا لازمی ہے جبکہ نواز شریف کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف نے توقع سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں مگر غلط اندازے لگانے والوں نے اپنے ووٹروں کو مایوس کیا ۔ اس بات کا تو یقین تھا کہ تحریک انصاف دوسری پارٹی کے طور پر سامنے آئے گی مگر مسلم لیگ ن اتنی مضبوط پارٹی ثابت ہو گی، حیران کن تھا۔ یہ فیصلہ اوپر سے ہوا ہے۔ ہمارے ہاں ”اوپر“ صرف امریکہ اور فوج کو سمجھا جاتا ہے حالانکہ ان سب سے اوپر بھی ایک طاقت موجود ہے جس کے فیصلے طے شدہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی سیٹ اپ کے پس پشت اللہ تعالیٰ کی حکمت واضح طور دکھائی دے رہی ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ایک مضبوط جمہوری لیڈر اور ایک مضبوط اپوزیشن کی ضرورت تھی۔ خیبر پختونخواہ جیسے مشکل خطہ میںعمران خان جیسا مشکلات سے کھیلنے والا لیڈر درکار تھا جبکہ ”پرانے پاکستان“ کی نفسیات نواز شریف سمجھتے ہیں۔ تحریک انصاف کو خدا نے موقع دیاہے کہ وہ پاکستان کے ایک صوبے کو بطور نمونہ پیش کرسکیں اوراپنی سیاسی بصیرت کو منوا سکیں۔ عمران خان کو خدا نے دوسری زندگی بخشی ہے اور مہلت دی ہے کہ وہ خیبر پختونخواہ میں کام کرکے اپنی صلاحیتوںکومنوا سکیں۔ انہیں چاہئے کہ میاں نواز شریف کی فتح کو فراخدلی کے ساتھ قبول کرکے خود کو مستقبل کا وزر اعظم ثابت کریں۔ امریکی انتخابات میں بھی دھاندلی ہوتی ہے۔ یہاں بھی سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالتے ہیں مگر ہار کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں۔ پاکستان ایک مہذب ملک ہے۔نواز شریف کو برا بھلا کہنے سے ان کی سیاسی بصیرت اور تجربے کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ ملک اس وقت جس بحران سے دوچار ہے، اسے تجربہ کار، تحمل مزاج، دور اندیش، سیاسی و حکمت و بصیرت کا حامل حکمران چاہئے۔ میاں نواز شریف کو دونوں مرتبہ مدت پوری کرنے نہیں دی گئی۔ نواز شریف نے بھی غلطیاں کیں مگر پاکستان کا نیا وزیر اعظم ایک بدلا ہوا نواز شریف ہے اور ملک کی تقدیر بدلنے کا تہیہ رکھتا ہے۔ بیرون ملک تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے دور میں پاکستان کی معیشت بحال ہوئی اور مستقبل میں بھی پاکستان کی اکانومی کے بہتر ہونے کی توقع ہے۔ اگلا الیکشن تحریک انصاف کا ہے مگر تحریک انصاف کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ زرداری کو پانچ سال برداشت کر سکتے تھے مگر نواز شریف کو برداشت نہیں کر سکیں گے۔ عمران خان کے کالم نگار بھی اعتراف کرتے ہیں کہ عمران خان کی پارٹی میں نا تجربہ کار اور بے کار لوگوں کی خاصی تعداد پائی جاتی ہے۔ شفقت محمود جیسے لوگ جو ایک پائیدار”لفٹر“ نہیں لا سکے وہ پائیدار نظام خاک بنائیں گے۔ ان لوگوں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے قومی ہیرو ہسپتال میں پڑا ہے۔ ان لوگوں کی چالاکیوں کی وجہ سے عمران خان وزارت عظمیٰ سے محروم ہے۔ ہمارے جیسے یہ کہہ کر تسلی دے لیتے ہیں کہ خان کو بستر پر لٹانے اور نواز شریف کو جتوا نے کے پیچھے اللہ کی حکمت ہے ۔ اللہ کی حکمتیں وہی جانے مگر عوام نے کھڑاک کر دیاہے۔
عوام کا ”کھڑاک“۔۔۔ !
May 15, 2013