پاکستان کے قومی انتخابات میں عوام کی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ ان انتخابات میں جن سیاسی پارٹیوں کی جیت ہوئی ہے، دراصل یہ پاکستان کی جیت ہے اور دہشت گردی کے خلاف پاکستانی عوام نے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کے حق میں اپنا ووٹ دیا ہے۔ اب امریکہ، برطانیہ اور بھارت سمیت تمام جمہوری حکومتوں کو پاکستان کے عوام کا یہ فیصلہ ہر حال میں تسلیم کرنا چاہئے کہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار مملکت ہے، یہاں غیر ملکی مداخلت کی کسی طور بھی کوئی گنجائش ہونی ہی نہیں چاہئے۔ یعنی اب سرزمین پاکستان پر در اندازی، ڈرون حملے اور غیر ملکی مشاورت کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ بلوچستان اور کراچی میں بھارتی مداخلت مکمل طور پر ثابت ہوچکی ہے، بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ پاکستان دشمن کاروائیوں میں مسلسل ملوث چلی آرہی ہے، قومی سلامتی کے سابق محافظ رحمن ملک اپنے دورِ حکومت کے دوران غیر ملکی ہاتھوں کے ملوث ہونے کا اقرار کرتے رہے ہیں، لیکن واضح طور پر بھارت کے خلاف نہ تو پالیسی مرتب ہوئی اور نہ ہی بھارتی پالیسیوں کے خلاف حکومتی سطح پر کوئی سفارتی سرگرمی دیکھنے کو ملی، بلکہ اندر کھاتے ”امن کی آشا“ کے نام پر بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت کے ساتھ دوستی کے لئے پینگیں بڑھائی جاتی رہیں۔ بلوچستان اور کراچی میں اس وقت جو مختلف مافیاز سرگرم عمل ہیں، بلاشبہ ان میں خود ہماے اپنے ہاتھ بھی ملوث ہیں۔ بدقسمتی سے ان کی سرپرستی خو دہمارے اپنے سیاسی گروپس کرتے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی مداخلت بھی برابر ان میں شامل ہے۔ لندن اور دُبئی میں مقیم پاکستان دشمن عناصر کو بھارتی ذرائع سے بھاری سرمایہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف قومی انتخابات میں اپنی واضح کامیابی کے بعد جن قومی امور کو ترجیحی بنیادوں پر اپنی وزارت عظمیٰ کی ٹیبل پر لانے کی بات کررہے ہیں اور ان امور پر اپنی متوقع کابینہ اور مشیروں سے اپنی حکومت کے خدوخال کے ساتھ ساتھ اپنا روڈ میپ مرتب کررہے ہیں، ان میں خوش آئند اور حوصلہ افزا یہ بات بھی ہوئی ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو بھی تسلیم کررہے ہیں او ر خیبر پختونخوا میں عمران خان کو حکومت سازی کے لئے فری ہینڈ بھی دے رہے ہیں، لیکن دوسری جانب وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کی تقریب میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو مدعو بھی کررہے ہیں۔ اس موقع پر بصد احترام میاں صاحب سے صرف اتنی ہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ میاں صاحب ذرا سنبھل کر.... ایسا نہ ہو کہ آپ کی بھارت کے ساتھ دوستی کا آغاز آپ کے اپنے نئے سیاسی سفر کو ہی ڈی ریل نہ کردے۔ ذرا اپنے ہاتھ کو ہولا رکھیں.... بھارت کی افغانستان میں موجودگی، کشمیریوں پر بھارتی مظالم اور پھر پاکستان میں بھارت کی مسلسل مداخلت.... یہ وہ امور ہیں کہ ان پر پہلے سفارت کاری کے ذریعے پاکستان کا موقف تو بھارت پر واضح ہونے دیں اور پھر برابری کی بنیاد پر ازسرنو دونوں ممالک کے مابین ترجیحی بنیادوں پر مسئلہ کشمیر کو اہمیت دی جانی چاہئے۔
بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات یقینا دوستانہ ہونے چاہئیں اور دونوں ممالک میں تجاارتی رابطے بھی دونوں ممالک کے عوام کے لئے معاشی تبدیلیوں کا باعث بن سکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ پاکستان میں بھارت کے ثقافتی کلچر کو ہر حال میں روکنا ہوگا۔ خاص طور پر پاکستانی میڈیا میں بھارتی کلچر کی یلغار کو روکنے کے لئے نئی حکومت کو عملی اقدامات کرتے ہوئے اس ضمن میں نئی پالیسی کا اعلان بھی کرنا ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) یقینا اپنی صفوں میں اپنے وزیروں اور مشیروں کی تجربہ کار صلاحیتوں سے استفادہ کرے گی اور اپنی حکومت کی عوامی پالیسیوں میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے قانونی اور آئینی تقاضوں کو بھی ملحوظِ خاطر رکھے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنی ماضی کی انتہائی ناقص کارکردگی اور پاکستانی تاریخ کے بدترین بدعنوان دورِ حکومت کے بعد اپنی سیاسی اہمیت وفاقی سطح پر مکمل طور پر کھوچکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے اندر ان کے اپنے رہنماﺅں کی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل بھی جاری ہوچکا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) جوکہ ہمیشہ ہی سے پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی لوٹ مار کو منظرعام پر لاتی رہی ہے، خاص طور پر میاں شہباز شریف صدر آصف علی زرداری کی کرپشن کو کھلے عام اپنی عوامی تقاریر میں پیش کرتے رہے ہیں۔ کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ صدر آصف علی زرداری سے اخلاقی طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جائے۔ اس بنیاد پر کہ ان کی اپنی پارٹی قومی انتخابات میں بری طرح ناکام ہوکر عوام کا اعتماد کھوچکی ہے۔ دوسرا یہ کہ آئینی طور پر صدر آصف علی زرداری کو بلاشبہ صدر کے عہدے پر چند ماہ تک مزید برقرار رہنا ہے، لیکن پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ صدر مملکت کا موجودہ عہدہ جوکہ کسی نہ کسی حوالے سے متنازعہ ہوچکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ صدر آصف علی زرداری کو مزید اس عہدے پر برقرار رکھنا چاہتا ہوگا کیونکہ افغانستان سے امریکی افواج نے نکل کر پاکستان ہی کے راستے واپس جانا ہے۔ حالات جو بھی ہوں، اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کا اصل امتحان شروع ہوچکا ہے۔ آزاد اور خودمختار پاکستان اس بات کا تقاضا کرتا ہے اب عوام کے مینڈیٹ کا ہر حال میں احترام کیا جائے اور خاص طور پر امریکہ، بھارت، افغانستان اور چین کے حوالے سے جو بھی خارجہ پالیسی مرتب ہو، اس میں پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات کو بھی مدنظر رکھا جائے اور پھر ایوان صدر کی آئینی حیثیت کو بحال کرتے ہوئے ہر حال میں پاکستان کو صاف ستھرا اور غیر جانبدار صدر مملکت دیا جائے جوکہ اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر پورے پاکستان کے 17 کروڑ عوام کا صدر ہو۔ ایوان صدر پر صرف اور صرف پاکستان ہی کی چھاپ ہو، اس پر امریکہ اور برطانوی مشاورت کے حوالے سے انگلیاں نہ اٹھائی جائیں! جس قدر جلد ممکن ہو اب صدر آصف علی زرداری کا صدارتی استحقاق ختم ہو جانا چاہئے۔
ماضی میں صدارتی استحقاق بے پناہ آئینی اور اخلاقی بحران پیدا کرچکا ہے، ملکی دولت لوٹ کر بیرون ملک لے جائی جاچکی ہے، مگر صدارتی استحقاق ڈھال بن کر صدارتی کرپشن کے آگے بے بس ہوکر قوم کا مذاق اڑاتا رہا ہے۔ یہ وہی صدر مملکت ہیں کہ جنہوں نے ماضی کے فوجی ڈکٹیٹر (ر) جنرل پرویز مشرف کو گارڈ آف آنرز دے کر محفوظ راستہ فراہم کیا اور اب دوبارہ اسی ڈکٹیٹر کو آئین پاکستان کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہونے کے باوجود تحفظ فراہم کرنے کے جواز تلاش کئے جارہے ہیں۔ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے، ایسا نہ ہوکہ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کا دور حکومت بھی ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ جیسے حالات سے دوچار ہوجائے۔ ماضی میں قوم سے کئے گئے وعدے اور نوجوانوں کے لئے روزگار کی فراہمی کے منصوبوں میں جس قدر جلد ممکن ہو، ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات ہونے چاہئیں جوکہ قوم کو نظر بھی آئیں اور پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی عوامی کارکردگی واقعی پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے میں کارگر ثابت ہو۔ معیشت جوکہ تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے، اس کو سنبھالا دینے اور عوام کے لئے ترقیاتی منصوبوں میں تیزی لانے کی غرض سے میاں شہباز شریف کے روڈمیپ کو اپنا لیا جائے تو یقینا پاکستان ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
میاں صاحب ذرا سنبھل کر....
May 15, 2013