پرائیویٹائزیشن کا جواز نااہلی اور بدیانتی

ابن رشد، الماوردی، غزالی جیسے بلند پایہ فقہا نے حکمران کے لئے جن خصوصیات کا تعین کیا ہے۔ ان کی تعداد تقریباََ 60 ہے۔ جب کہ کل منفی اور مثبت صفات کی تعداد بھی 60 سے ڈیڑھ سو کے قریب ہے۔ حکمرانی کے لئے بنیادی شرائط بہادری، نیک نیتی، معاملہ فہمی، ایمان، تعلیم، شہ سواری، تیغ زنی وغیرہ ہیں۔ متفق الیہ خصوصیات میں سے بحالی حکومت کے لئے رعایت کے باوجود نیک نیتی اور دیانت داری کی شرط سے اغراض ممکن نہیں۔ وطن عزیز کی صورتحال دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ مثبت خصوصیات تو شاید طاق نسیاں کی نذر ہو چکی ہیں البتہ منفی صفات کا چارٹر پوری شدومد سے روبہ عمل ہے۔ شاید میکاولی اور چانکیہ بھی اس صورت کو دیکھ کر شرما جاتے حکومت اور اس کے اعمال تو درکنار عوام بھی عمومی زندگی میں دائو پیچ منافقت اور دیگر منفی رجحانات کے دلدادہ دکھائی دیتے ہیں۔ الناس علی دین ملوکہم کے مصداق نیچے سے اوپر تک آوے کا آوا بگڑا پڑا ہے۔
 بھٹو شہید نے ایک دفعہ کہا تھا مجھے پانچ سو آدمی مل جائیں تو ملک وقوم کی تقدیر بدل کے رکھ دوں۔ اس سے قبل قائداعظمؒ نے فرمایا تھا میری جیب میں سب کھوٹے سکے ہیں۔ بدقسمتی کی انتہا یہ کہ حکمرانوں کے چنائو کے لئے الیکشن کمشن اور اعمال کی تقرری کے لئے پبلک سروس کمشن جیسے جید ادارے موجود ہیں لیکن نہ قائدؒ کو کھرے سکے مل سکے نہ بھٹو شہید کو پانچ سو افراد۔ چند دن قبل ایک پرائیویٹ سکول کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ سکول کیا تھا چند کمروں پر مشتمل کبوتر خانہ کہہ لیجئے۔ نہ کھیل کا میدان، نہ اسمبلی کی جگہ، تقریب کا اہتمام گلی میں خیمہ کے نیچے ہوا مگر جب اس کی کارگزاری کی تفصیل سنی تو حیرانی ہوئی سرکاری سکولوں کے شریک سربراہوں کی حالت یہ تھی سنتا جا شرماتا جا بورڈ کے امتحانی نتائج نہ صرف سو فیصد بلکہ ایک چوتھائی بچے (40 کے لگ بھگ) ڈاکٹری اور انجینئرنگ میں داخلے کے مستحق۔ سکول کے پرنسپل سے اس چندھیا دینے والی کارکردگی اور کامیابی کا راز پوچھا تو کہنے لگے۔ صرف اور صرف دیانتداری! میرے نزدیک دیانت ہی گڈ گورننس کا دوسرا نام ہے۔
میں نے اس بات پر بہت غور کیا جتنا غور کیا نکتہ اتنا ہی زیادہ گہرا گھمبیر اور حوصلہ افزا بنتا چلا گیا۔ آج حکومت نے پرائیویٹائزیشن کی جو رٹ لگا رکھی ہے یہ سراسر سرمایہ دارانہ نظام کا منافقانہ درس ہے شخصی حاکمیت کی طرح شخصی ملکیت کا پھیلائو تاکہ معاشرہ اداروں کی اتباع اور اصولوں کی پیروی کے بجائے شخصیات کے چنگل میں پھنستا چلا جائے۔ ایک طرف جمہوریت یعنی عوامی راج کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر معیشت کو چند گنے چنے لوگوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ سوچ کا منافقانہ تضاد ہے۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ ہو گا کہ شخصی معیشت اور شخصی سیاست ایک دوسرے سے تقویت یا ملک میں بدترین شخصیت پرستی اور اداروں کی تباہی کی راہ ہموار ہو گی۔ جب طے یہ ہے کہ کوئی کاروبار بھی دیانت کے بغیر نہیں چل سکتا تو کیا پاکستان کی خاطر چند دیانت دار افراد کو تلاش نہیں جا سکتا۔ بھلا حکمرانوں سے زیادہ دیانت کے معانی کون جانتا ہو گا۔ کیونکہ جب معاملہ ان کی اپنی ذات کا آتا ہے تو یہ ایک پیسے کی خیانت یا دروغ گوئی برداشت نہیں کرتے۔ پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں چند سیٹھوں یعنی ایمانداروں کو شامل کیا گیا تھا۔ ان کی وطن پرستی اور حب الوطنی ملاحظہ کیجئے کہ انہوں نے عدم فرصتی کے بہانے معذرت کر لی۔ ہاں اگر آپ قومی ائر لائن انہیں اونے پونے بیچ دیں تو پھر ان کی حب الوطنی جاگ پڑے گی اور دیانتداری بھی پھڑپھڑانے لگے گی۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی دیانت کو صرف تنخواہ یا معاوضے کے عوض قوم کی خدمت کے لئے استعمال کرنے پر راضی نہیں البتہ امگر ادارہ اس کی ملکیت میں دے دیا جائے تو وہ اس کو چار چاند لگانے پر تیار ہے۔ اس سے پہلے کتنے ہی ادارے شخصیات کی ملکیت میں جا کر چاند سورچ بن چکے ہیں۔ اب یہ نظام شمسی ادارے ہڑپ کرنے والا بلیک ہول بنتا جا رہا ہے۔ اگر یہی عالم جاری رہا تو پھر ریاست متحارب کاروباری گروہوں (جدید وار لارڈز) کی گرفت میں چلی جائے گی۔ وہ پاکستان جو عوام نے اپنے لئے بنایا تھا اسے چند مگرمچھ ہڑپ کرنے پر مصر ہیں ایسے میں اگر کلاشنکوف شریعت کے نام پر من مانی کرنا چاہتی ہے تو یہ کوئی عجوبہ نہیں بلکہ عین ردعمل ہے۔ بندر بانٹ ہی مقصود ہے تو شریعت کے ذریعہ کیوں نہ ہو اس طرح خون زنبیل نما جونکوں جن میں جڑیں باہر ہیں میں جانے کے بجائے ملک وقوم کی رگوں میں تو رہ جائے گا۔ بقول امیر جماعت اسلامی اب سیاسی اور معاشی دہشت گردی سے بھی نبٹنا ہو گا۔ پرائیویٹائزیشن کے شوقین حکمرانوں سے سوال… کیا سینکڑوں ہزاروں کالج یونیورسٹیاں الیکشن کمشن پبلک سروس کمشن مل کر بھی بیس کروڑ انسانوں میں سے چند سو دیانت دار اعمال اور حکمران تلاش اور تیار نہیں کر سکتے؟ ؟ چند کھرے سکوں کا سوال ہے بابا!!!

ای پیپر دی نیشن