تحفظِ پاکستان بل 2014ء یا مارشل لا کیلئے راستے کی ہمواری

May 15, 2014

لیاقت بلوچ....جماعت اسلامی

صدرپاکستان نے اکتوبر2013ء میں تحفظ پاکستان آرڈی ننس جاری کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اپوزیشن نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا ان کا کہنا تھاکہ اس آرڈی ننس کے ذریعے بدامنی کا جن قابو ہونے کے بجائے مزید بے قابو ہوجائے گا۔
بظاہر متاثرہ علاقوں کیلئے بنائے گئے اس بل کا اطلاق پورے پاکستان پر کیا گیا ہے البتہ وفاقی حکومت کویہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے کسی مخصوص علاقے یا علاقوں تک اسکے اطلاق کو محدود اور ایسے ہی نوٹیفکیشن کے ذریعے کسی مخصوص علاقے یا علاقوں کو اس کے دائرۂ نفاذ سے نکال سکتی ہے۔اس بل کی بہت سی شقیں بنیادی انسانی حقوق اورخوداسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین سے متصادم ہیں۔سب سے پہلے ملاحظہ ہودشمن کی تعریف۔ ’’وہ شخص جس کے پاس پاکستانی شہریت کی دستاویزنہ ہو یا جسے اسکی شہریت سے محروم کیا گیا ہو اور اس پر پاکستان کیخلاف جنگ اور بغاوت میں ملوث ہونے یا اسکی سرزمین کو منفی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے کا شبہ ہو ،وہ اجنبی دشمن کہلاتا ہے۔‘‘دنیا بھرمیں کہیں بھی دشمن کی یہ تعریف نہیں پائی جاتی۔ ہرجگہ ایسے فردکو دشمن سمجھنے کی بجائے عدالت کے سپرد کیاجاتاہے تاکہ اس شخص کو اپنے خلاف شکایت کا جواب دینے کا پورا موقع مل سکے۔ یہ تعریف خود آئین پاکستان کی دفعہ 4سے متصادم ہے۔بل کی شق3کی ذیلی شق میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی پولیس آفیسر، مسلح افواج یا قانون نافذ کرنیوالے سول اداروں کا رکن، جو کہ کسی بھی علاقے میں ذمہ داری نبھا رہا ہو، اگر وہ شیڈول جرم کے وقوع پذیر ہونے کا معقول خطرہ محسوس کرے تو مناسب وارننگ کے بعد وہ ضروری طاقت کا استعمال کر سکتا ہے ۔
اسی شق کی ذیلی شق 2-A میں کہا گیا ہے کہ اگر ضروری طاقت استعمال کے نتیجے میں اُس شخص کی موت واقع ہوجائے یا وہ شدید زخمی ہو تو یہ کارروائی قانونی تصور ہوگی۔تاہم یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ ایسے تمام کیسز کیلئے جن میں اموات واقع ہوں یا متأثرہ شخص شدید زخمی ہو، متعلقہ قانون نافذ کرنے والا ادارہ ایک ادارتی تفتیشی کمیٹی بنائے گا جو کہ اس نوعیت کے واقعات کا جائزہ لے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ جب مارنے کے اس اقدام کو قانونی قراردے دیا گیا پھر اس کا جائزہ لینا چہ معنی دارد، پھرجائزہ بھی وہی لے جس نے قتل کیاہو، خودہی مدعی خودہی منصف۔ اس طرح سے عدالتوں کا مقصدختم ہوجاتاہے اور انصاف کے معنی بدل جاتے ہیں۔اگر اس طرح قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو اختیار دیں گے تو اس کا غلط استعمال ہو گا اور ہر کیس میں مناسب خدشہ یا معقول خطرے کی اصطلاح ہی استعمال کی جائے گی، جو آئین کے اندر دیے گئے بنیادی حقوق کے منافی ہے۔
اسی شق 2کی ذیلی شق 2-Bمیں کہا گیا ہے کہ کو ئی پولیس آفیسریا مسلح افواج، یا سول اداروں کا ممبر جو کہ سول حکام کے تحت فرائض سرانجام دے رہا ہو، کسی بھی ایسے شخص کوبغیر وارنٹ گرفتار کر سکتا ہے جس کے بارے میں شبہ ہو یا قابل اعتماد معلومات ہوں کہ اس نے شیڈول جرم کا ارتکاب کیا ہے یا یہ کہ وہ کوئی جرم یا ایکٹ کرنیوالا تھا اور،اسی شق2 کی ذیلی شق Cمیں کہا گیا ہے کہ شیڈول جرم کے ارتکاب کے حوالے سے وہ آفیسر بغیر وارنٹ کے کسی بھی گھر میں داخل ہو سکتا اور تلاشی لے سکتا ہے، کسی کو گرفتار کرسکتاہے یا کسی ایسی پراپرٹی،ہتھیار،آتشیں اسلحہ یا دیگر اشیاکو اپنے قبضے میں لے سکتا ہے جو جرم میں استعمال ہو ا ہو، یا استعمال ہونے کا خدشہ ہو۔ اسی طرح بغیر وارنٹ کے کسی جگہ میں داخل ہو نا دراصل وہاں پر رہنے والے مرد و خواتین ،بوڑھے اور بچوں کے ان بنیادی حقوق کو سلب کرنا ہے جو کہ آئین نے اُن کو عطا کیے ہیں۔
’’تحفظِ پاکستان (ترمیمی) آرڈیننس 2014ئ‘‘ کے نفاذ سے پہلے مسلح افواج یا قانون نافذ کرنیوالے سول اداروں کی طرف سے گرفتار کیے گئے یا تحویل میں رکھے گئے کسی بھی شخص کی گرفتاری یا تحویل بھی اسی ایکٹ کے تحت گرفتاری یا تحویل متصور ہوگی۔قانون کی شق8 اور ذیلی شقات 1,2,3,4,5,6,7 خصوصی عدالتوں کے قیام سے متعلق اور اسپیشل جج کے تقرر اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی تقرری اور فنکشن سے متعلق ہیں.
قانون کی شق9 اور ذیلی شقیں 1,2,-A,B اور3مقدمات کی انکوائریز،تفتیش اور کارروائی سے متعلق ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ حکومت ،جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم،مسلح افواج،قانون نافذ کرنیوالے سول ادارے اپنے افراد کے تحفظ کی خاطر یا قید کیے گئے ملزم یا حراست میں رکھے گئے افراد کے تحفظ کی خاطریا کسی اور وجہ سے متذکرہ جگہ یا بیگار کیمپوں / حراستی مراکز سے متعلق معلومات دینے کے پابند نہ ہونگے۔ مندرجہ بالا شقیں اور ذیلی شقیں لانے کا مقصدسپریم کورٹ میں لاپتاافرادکے بارے میں کیس کو غیرموثرکرنا اور اس طرح کے تمام معاملات کو اعلیٰ عدالتوں سے چھپانا اور قانون نافذکرنیوالے اداروں کو لامحدو داختیارات سے نوازناتاکہ وہ جس شہری کے ساتھ جو سلوک کریں ان کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ یہ قانون تو ابھی تک سینیٹ میں زیر التوا ہے لیکن لاپتاافراد کے ساتھ پہلے سے ہی اسی طرح کا سلوک کیا جارہا ہے۔یہ قانون انصاف کے بنیادی حقوق کیخلاف ہے۔ اس قانون کی رُو سے صرف پولیس رپورٹ کی بنیاد پر سزا سنائی جاسکتی ہے۔ہم نے صرف چند نکات کا ذکر کیا ہے ورنہ یہ نیا قانون ہر لحاظ سے ایک کالا قانون ہے۔ نہیں کہا جاسکتاکہ اس طرح کے قانون سازی سے سول مارشل لا نافذ کرنے کی کوشش ہورہی ہے یا حقیقی مارشل لا کیلئے باامرمجبوری راہ ہموار ہو رہی ہے۔

مزیدخبریں