وزیراعظم کا دورہ¿ ایران‘ قادری‘ عمران کا واویلا

وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ ایران.... پاکستان کیلئے خوش قسمتی کے دروازے کھلنے کا باعث بنے گا۔ ہمسایوں سے اچھے تعلقات اور ان سے کاروبار کرنا کامیابی کی علامت اور ضامن ہے۔ ایران سے گیس پائپ لائن کے منصوبے کی تکمیل سے ہمارے ملک میں ترقی و خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا۔ اس سے پاکستان کی گیس کی25 فیصد ضرورت پوری ہوگئی۔ اس ضمن میں وزیر اعظم نواز شریف نے ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات پر دو ٹوک انداز میں اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ گیس منصوبے پر کوئی دباو¿ قبول نہیں کیا جائیگا۔ اسی طرح وزیر اعظم نے ایران سے باہمی تجارت کے حجم کاہدف 5 ارب تک بڑھانے کا عندیہ دیا ہے جو دونوں ممالک کیلئے انتہائی نیک شگون ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں پاکستان اور ایران کے تعلقات انتہائی خوشگوار رہے۔ دونوں ممالک نے اچھے اور برے وقتوں میں ایک دوسرے کاساتھ دیا ہے۔65ءاور71ءکی بھارت سے جنگ میں ایران نے کھلے بندوں پاکستان کی حمایت کی۔ اسی طرح ایران عراق جنگ میں پاکستان نے ایران کی بھرپور حمایت کی جنرل ضیاءالحق نے اس جنگ کو روکنے کیلئے عراق اور ایران کے کئی دورے کئے جبکہ امریکہ اس جنگ کو طول دینا چاہتا تھا تاکہ اسکے مذموم عزائم پورے ہو سکیں۔ اس طرح امریکہ نے جب ایران پر پابندیاں عائد کیں اور اسے خوراک کی کمی کا مسئلہ پیش آیا تو پاکستان نے اسے چاول اور دیگر اجناس فراہم کیں۔ دوسری طرف امریکہ بہادر کو پاک ایران تعلقات ایک آنکھ نہیں بھاتے وہ حیلے بہانوں سے پاکستان کو ایران سے دور رکھنے کیلئے دباو¿ بڑھاتا ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان پیدا کشیدگی کو کم کرنے کی بھی کوشش کی ۔ یہ کشیدگی امریکہ نے پیدا کی ہے۔ اس کشیدگی کی وجہ سے امریکہ اب تک120 بلین ڈالر عربوں سے اسلحہ کی فراہمی میں بٹور چکا ہے جبکہ پاکستان نے خلیجی ممالک اور ایران کو باور کرایا ہے کہ خطہ میں کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں۔ بہرحال وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کا دورہ ایران کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نئی راہیں کھیلیں گی۔
 دوسری طرف گرمی کے آتے ہی ملک کا سیاسی موسم بھی انتہائی گرم ہو چکا ہے۔ پہلے نواز شریف کیخلاف اپوزیشن جماعتوں کے گرینڈ الائنس بننے کی چہ ” مگوئیاں “ تھیں۔ اب یہ چہ مگوئیاں .... ” سرگرمیوں “ کے سانچے میں ڈھل چکی ہیں۔ جس روز وزیر اعظم نواز شریف ایران کے دورہ پر گئے اسی روز پاکستان میں تین بڑی پارٹیوں کی طرف سے احتجاجی جلسے کیے گئے۔ پہلا جلسہ جماعت اسلامی نے لاہور میںسجایا۔ دوسرا جلسہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت عوامی تحریک کا تھا۔ عوامی تحریک نے اسی روز لاہور سمیت ملک کے دیگر 60 شہروں میں بھی ” حکومت اور نظام “ کیخلاف احتجاجی جلسے کیے۔ اسی طرح تحریک انصاف نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں محفل آرائی کی۔
 سیاست میں یہ تلاطم وزیر اعظم نواز شریف کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ابھی ان کی حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال مکمل بھی نہیں ہوا مگران کی حکومت کو گرانے کیلئے صف بندیاں شروع ہو چکی ہیں۔ ان کی جماعت کے منتخب ارکان اسمبلی اور عہدیداروں کی من مانیوں سے (ن) لیگ کے کارکنوں اور عوام میں فاصلے بڑھ چکے ہیں۔ لیڈر اپنی جماعت کی ترجمانی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ رہی سہی کسر وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے فوج کیخلاف غیر ضروری بحث کا آغاز کرکے پوری کر دی جبکہ پوری قوم اور بالخصوص مسلم لیگ کے کارکن پاک فوج کیخلاف کوئی منفی بات سننا بھی گوارہ نہیں کرتے۔(ن) لیگ کے وزراءکے فوج کیخلاف زہریلے پروپیگنڈہ سے (ن) لیگ کا گراف تیزی سے نیچے گرا ہے۔ جس کے باعث عمران خان، طاہر القادری ، چودھری برادران اور دیگر اپوزیشن رہنماو¿ں کو حکومت کیخلاف صف آرائی کا موقع ملا۔
11مئی کو ملک بھر میں احتجاجی جلسوں کی یلغار تھی۔ لاہور کے وحدت روڈ پر گراو¿نڈ میں ہونے والا جماعت اسلامی کا جلسہ اصل میں انکے نئے امیر سراج الحق کی رونمائی تھی جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہونے کے بعد سراج الحق کا لاہور میں یہ پہلا جلسہ تھا جس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں نا اہل لوگ بیٹھے ہیں۔ مٹھی بھر اشرفیہ نے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ہمارا پورا نظام زندگی مسجد کے گرد گھومتا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب مسجد ہمارا ہیڈ کواٹر، اسمبلی ہال ، عدالت اور بینک ہوگا۔ سراج الحق ایک انتہائی ذہین اور دیانتدار شخصیت ہیں وہ اپنی صلاحیتوں سے جماعت اسلامی میں نئی روح پھونکنے میں کامیاب ہوں گے جبکہ جماعت اسلامی کے سبکدوش ہونے والے امیر سید منور حسن جیسے با کردار لوگ اب کم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں وہ بھی اپنے دور امارت میں حق اور سچ کی بات کہتے رہے ہیں۔ انہوں نے کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی بجائے صراط مستقیم پر چلنا ہی اپنا شعار بنائے رکھا۔
 دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری جو خود کو شیخ السلام کہتے ہیں احتجاجی جلسہ میں ان کے خطاب سے واضح ہوا ہے کہ وہ ایران کے عظیم رہنما آیت اللہ خمینی بننے کے جتن کر رہے ہیں۔ بلا شبہ پاکستان اسلامی رجحان رکھنے والی مملکت ہے مگر یہاں پر اہل تشیع سے زیادہ اہل سنت بستے ہیں۔ اسی طرح اہل حدیث، دیوبندی اور بریلوی فرقوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ان لوگوں کی نظر میں ڈاکٹر طاہر القادری ایک خاص مکتبہ فکر کے مبلغ ہیں۔ اس لئے ان کی مقبولیت کا پاکستان میں کوئی امکان نہیں۔ لہٰذا انہیں سیاپا کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا اور نا ہی ان کا مال فروخت ہوگا۔ اسی طرح عمران خان کا واویلا بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیوں ان کا ماضی اور حال آپس میں نہیں ملتا۔ عمران خان کا ماضی گواہ ہے کہ جن لوگوں نے ان کے ساتھ طویل وقت گزار،ان کے ساتھ سیاسی سفر کو آگے بڑھایا وہ اب سب کے سب اسے چھوڑکر جا چکے ہیں۔ عمران کے ساتھ اس وقت جو لوگ موجود ہیں۔ روایت کے مطابق ممکن نہیں کہ وہ آئندہ بھی اس کے ساتھ ہوں گے۔ عمران خان میں بشری خامیوں کے باوجود بہت سی خوبیاں بھی ہیں۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے ادارے ISI کی حمایت کرنے اور انکے نقطہ نظر پر اسٹینڈ لینا ان کا ایک قابل تعریف عمل ہے۔ افواج پاکستان کے خلاف بولنے والوں کا منہ توڑ دینا چاہیے۔ امریکہ اور بھارت سے فنڈز لیکرISI کی کردار کشی کرنے والوں کیخلاف بول کر عمران خان نے بلا شبہ ایک قومی فریضہ ادا کیا ہے۔ جس پر وہ داد اور شاباش کے مستحق ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...