اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) خصوصی عدالت میںسابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت میں عدالت نے سیکرٹری داخلہ شاہد خان کو بیان قلمبند کرانے اور جرح کیلئے آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ شکایت کنندہ (سیکرٹری داخلہ ) پیش نہ ہوئے تو شکایت خارج بھی ہوسکتی ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے شکایت کنندہ پیش نہ ہو اور مقدمے کے دیگر گواہ اُن کے موقف کی تائید بھی کرتے رہیں ، آئین کے آرٹیکل 260(f)1 کے تحت انہیں پہلے عدالت میں پیش ہونا پڑے گا، حکومتی پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے پہلے سیکرٹری داخلہ کے پیش ہونے کی مخالفت کی بعدازاں 22 مئی کو عدالت پیش ہونے کی یقین دہانی کرا دی۔ دوران سماعت پراسیکیوشن کی جانب سے وزارت داخلہ کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ،گواہوں کی فہرست اور بیانات سمیت تمام دستاویزات خصوصی عدالت میں پیش کر دیئے گئے۔ عدالتی حکم پر اس کی کاپیاں دفاع کونسل کو بھی فراہم کردی گئیں۔ 237صفات پر مشتمل رپورٹ میں مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ 11صفات پر مشتمل ہے جبکہ گواہوں کے بیانات 96صفحات پر مشمل ہیں، 28گواہوں کی فہرست اور بیانات سمیت شہادتوں کے خلاصہ پر مبنی چھ صفحات بھی شامل ہیں۔ اکرم شیخ کی جانب سے 10گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے اور جرح کیلئے درخواست دائر کی گئی جس میں دو اضافی گواہوں سمیت ایس ایس پی اور ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے محمد یوسف اور خیبر پی کے کے ڈائریکٹر ایف آئی اے نجف قلی مرزا سمیت سراج احمد، خالد رسول، محمد خالد قریشی، مقصود الرحمان، حسین اصغر، تاج عمر خان، طالب حسین، کلیم احمد شہزاد شامل ہیں۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت کی تو پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے وزارت داخلہ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ سمیت گواہوں کے بیانات اور دیگر دستاویزات عدالت میں پیش کیں تو عدالت نے تمام دستاویزات کی اصل مصدقہ رپورٹ عدالتی ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے ایک کاپی پرویز مشرف کے وکیل کو فراہم کر دی۔ دوران سماعت اکرم شیخ نے ایک درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وزارت داخلہ کی رپورٹ میں 26گواہ ہیں شامل کئے گئے دو گواہوں کے بعد یہ تعداد 28 ہو جاتی ہے ان میں سے ایف آئی اے نے 18گواہوں کے بیانات تو قلمبند کئے ہیں باقی 8 گواہوں پر جراح اور بیانات قلمبند کرنا چاہتے ہیں، اس کے علاوہ دو اور نام بھی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں جس سے ان کی تعداد 10ہو گئی ہے ۔ اکرم شیخ نے عدالت سے استدعا کی کہ آٹھ گواہ آفیشل ہیں عدالت انہیں پیش ہونے کاحکم صادر کرے۔ اس پر جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ دو گواہوں کو اضافی طور پر کیوں شامل کیا گیا۔ ا س پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی معاملے پر جرح کی جاسکتی ہے۔ وکیل دفاع چوہدری شوکت حیات نے موقف اختیار کیا کہ غداری کیس میں شکایت کنندہ سیکرٹری داخلہ ہے عدالت انہیں بیان اور جرح کیلئے طلب کرے آئین کے آرٹیکل 260(f)1 کے تحت شکایت کنندہ کا سب سے پہلے عدالت میں حاضری ضروری ہے اگر یہ کوئی پرائیویٹ شکایت ہوتی تو شکایت کنندہ کی عدم حاضری کے باعث اب تک خارج ہو چکی ہوتی۔ اکر شیخ نے سیکرٹری داخلہ کی عدالت میں طلبی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ گواہوں کی فہرست میں سیکرٹری داخلہ کا نام موجود نہیں لہٰذا انھیں بلانے کی ضرورت نہیں اس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شکایت کنندہ پیش نہ ہو اور مقدمے کے دیگر گواہ اُن کے موقف کی تائید کرتے رہیں، انھیں عدالت پیش ہونا پڑے گا ورنہ شکایت خارج بھی ہوسکتی ہے۔ عدالت نے دونوں فریقین کو آدھے گھنٹے کا وقت فراہم کرتے ہوئے کہا تمام دستاویزات کا جائزہ لے لیں۔ وقفے کے بعد اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ میری شکایت کنندہ (سیکرٹری داخلہ) سے بات ہوئی ہے وہ 22مئی کو عدالت میں پیش ہونگے۔ رپورٹ میں ایف آئی اے نے 3 نومبر کی ایمرجنسی کی ذمہ داری پرویز مشرف پر عائد کی ہے۔ ثناء نیوز اور این این آئی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر کا اقدام بطور آرمی چیف کرنا ثابت ہو گیا ہے۔ ایمرجنسی کے فرمان پر پرویز مشرف کے دستخط ہیں، تمام گواہوں نے پرویز مشرف کیساتھ کسی بھی قسم کی مشاورت سے انکار کیا ہے۔ شہادتوں کا خلاصہ چھ صفحات پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے مطابق تمام گواہان نے پرویز مشرف کے ساتھ شرکت جرم سے انکار کیا ہے۔ گواہوں کے مطابق پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدامات سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ شریف الدین پیرزادہ، سابق اٹارنی جنرل ملک عبدالقیوم، سابق گورنر پنجاب خالد مقبول، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے مشرف کے ساتھ تین نومبر کے اقدام کے حوالے سے اپنی شرکت سے انکار کیا اور لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دو نومبر 2007ء کابینہ کا کوئی اجلاس نہیں ہوا تھا جس سے متعلق پرویز مشرف کے وکلاء کا دعوی تھا کہ اس اجلاس میں تین نومبر کی ایمرجنسی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پرویز مشرف سے شامل تفتیش ہونے کے لئے رابطہ کیا گیا تھا تاہم پرویز مشرف کے سٹاف نے ایف آئی اے کی ٹیم کو جواب دیا کہ سابق صدر کو بخار ہے وہ بعد میں تفتیش میں شامل ہو جائیں گے۔ پرویز مشرف نے جان بوجھ کر بیان ریکارڈ نہیں کرایا۔ انکوائری ٹیم نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مشرف ملک چھوڑ سکتے ہیں ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے وزارت داخلہ سے رجوع کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق وزارت دفاع اور جی ایچ کیو سے تین نومبر کی ایمرجنسی کا ریکارڈ نہیں ملا۔ انکوائری ٹیم نے دوران تفتیش سپریم کورٹ کے فیصلہ پر انحصار کیا۔ تحقیقاتی ٹیم نے مشرف کے معاونین کے کردار کا جائزہ لینے کی بھی سفارش کی ہے۔ غداری کیس میں تحقیقاتی ٹیم نے آٹھ جرائم کا تعین کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تین نومبر کے فرمان کا مشرف کی جانب سے اجراء ثابت ہو گیا ہے۔ گواہوں نے ثابت کیا ہے کہ اٹارنی جنرل، وزارت قانون، وزارت داخلہ اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری تین نومبر کے فرمان کا حصہ نہیں تھے۔ پرویز مشرف کے پاس بطور آرمی چیف تین نومبر کا فرمان جاری کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ رپورٹ کے مطابق تین نومبر کا اقدام جعلسازی اور بے بنیاد اور غیر قانونی منطقوں پر مشتمل تھا۔ رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ بھی تین نومبر کے اقدام کو 31 جولائی 2009 کے فیصلہ میں غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔ تین نومبر کے فرمان کے ذریعہ مشرف نے پاکستان کا وجود خطرے میں ڈال دیا۔