پاکستان کی سیاسی جماعتیں بالواسطہ اور بلاواسطہ قتل کے جرم میں ملوث ہیں۔ شاید ہی کسی سیاسی جماعت کے ہاتھ لہو سے پاک ہوں۔ کبھی ہاتھ سے مارتے ہیں اور کبھی ہاتھ کے اشارے مرواتے ہیں۔ ہوس اقتدار اور حسد و رقابت میں خون بہانا سیاست سمجھا جاتا ہے ۔ ہوس اقتدار اور حسد و رقابت میں جب سے دنیا بنی ہے بھائی نے بھائی کا خون کیا جبکہ سیاست میں خون بہانا اور جیلوں میں جانا کریڈٹ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کی ڈکشنری ”ابلیس“ نے لکھی تھی۔ اس ڈکشنری میںجرم کو ”قربانی“ اور مقتول کو ”شہید“ قرار دیا جاتا ہے۔ ہر پارٹی نے ٹاﺅٹ پال رکھے ہیں۔ رحمان ملک اور الطاف حسین کے علاوہ بھی ہر پارٹی میں داخلی و خارجی ایجنٹ اور ٹاﺅٹ سرگرم عمل ہیں۔ کراچی کے سانحہ صفورا میں بھی بیرونی ایجنٹ ”آستین کے سانپ“ ملوث ہیں۔ پاکستان کے سانحات پر داعش یا دیگر دہشت گرد تنظیموں کے دعووں کے پیچھے گھناﺅنا کھیل جاری ہے۔ بقول ذوالفقار مرزا رحمان ملک پاکستان میں امریکی ایجنسی بلیک واٹر کا ”ٹاﺅٹ“ تھا۔ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تفتیش کا آغاز رحمان ملک سے کیا جائے کیونکہ رحمان ملک بی بی کا سکیورٹی انچارج تھا۔ ذوالفقار مرزا نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس رحمان ملک کے بلیک واٹر کے نمائندہ ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔ ذوالفقار مرزا نے اپنے ایک انٹرویو میں مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک شخص فوج میں تھا، فوجی گھرانے سے تعلق تھا، رحمان ملک کی طرح وہ بھی جی حضوری کرتے کرتے بی بی تک پہنچ گیا، فوجی اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کرواتا، جب چاہتا بی بی اور زرداری سے ملاقات کر سکتا تھا۔ اس قسم کے ٹاﺅٹ سیاسی رہنماﺅں کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر مرزا کے بقول بی بی کی گاڑی کے پیچھے ذاتی سکیورٹی کی گاڑی ہوا کرتی تھی۔ جس روز سانحہ پیش آیا، سکیورٹی کی گاڑی میںرحمان ملک اور بابر اعوان بیٹھے ہوئے تھے، بی بی کی گاڑی پر حملہ ہواتو اس گاڑی نے رکنے کی بجائے دور جا کر بریک لگائی۔ بابر اعوان کا نام لینے کی بجائے ڈاکٹر مرزا نے انہیں (سامری جادوگر) کہہ کر پکارا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور آصف علی زرداری کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آچکے ہیں اور ایک دوسرے کی مخالفت میں کوئی راز اور الزام ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ”مکافات عمل“ کے اس ماحول میں ڈاکٹر مرزا کے انکشافات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر ایسے انکشافات جن کے بارے میں عوام کے دل پہلے ہی گواہی دے چکے ہیں۔ بی بی کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوا اور بلاشبہ اس سانحہ میں آستین کے سانپ ملوث تھے۔ بعد میں زرداری نے رحمان ملک کو وزیر داخلہ بنا دیا اور بابر اعوان کو میڈیا نے اتنا بڑا دانشور بنا دیا کہ ایک نجی ٹی وی چینل نے انہیں اپنا ”پیشوا“ مقرر کر دیا ہے۔ عوام منہ اٹھائے (سامری جادوگر) کا شو”بھی“ مِس نہیں کرتے۔ پاکستانیوں کو ٹاک شوز کی”ایڈکشن“ ہو گئی ہے جس سے عوام میں عارضہ قلب اور نفسیاتی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جب دیکھو ملکی سیاست پر کڑھ رہے ہوتے ہیں جبکہ ان قاتلوں کو ووٹ بھی دیتے ہیں اور ان کے پروگرام اور خطابات بھی سنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو ان کے اعمال کے سبب لیڈر عطا کیے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن بھی زرداری صاحب سے ناراض ہیں۔ نیویارک پیپلز پارٹی کے ایک پرانے کارکن نے اخبار میں خبر لگوائی ہے کہ پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو کو فوری طور پر پارٹی کی قیادت سونپ دی جائے۔ زرداری صاحب نے بے نظیر کے قاتلوں سے مفاہمت کی لیکن پارٹی کے کارکنوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھا۔ رحمان ملک الطاف حسین کے بہترین دوست اور عقیدت مند ہیں جبکہ الطاف حسین نے راءسے کھلم کھلا مراسم کا اعتراف کیا ہے۔ پاک فوج نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس ایم کیو ایم کے راءسے روابط کے ثبوت موجود ہیں۔ رحمان ملک الطاف حسین کے مراسم اور آصف زرداری کا اس جوڑی کے ساتھ تعلق اور رومانس سب کے سامنے ہے۔ یہ لوگ بلیک واٹر اور راءکے ”ٹاﺅٹ“ ہیں اورسیاسی جماعتوں کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمران خان کو تبدیلی کی علامت سمجھا جاتا تھا، انہوں نے بھی دوران دھرنا مفاہمت کے لیے رحمان ملک کے تعاون کو قبول کیا، جرگے کی سربراہی سونپ دی۔ رحمان ملک اور الطاف حسین ایک دوسرے کا آئینہ ہیں، دیکھنے میں بھی ایک دوسرے کے رشتے دار معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا باطن ان کے چہروں سے عیاں ہے۔ کراچی کا امن دشمنوں سے برداشت نہ ہو سکا۔ فوج کے ”را“ کے خلاف دوٹوک بیان کا رد عمل سانحہ صفورا کی صورت میں سامنے آگیا۔ اقلیتوں پر حملے ملک کو بدامنی اور انتشار کی طرف لے جانے میں ”شارٹ کٹ“ ثابت ہوتے ہیں۔