بھارت میںبی جے پی کی حکومت کے دوسالہ دور میں سب سے نمایاں واقعہ اس کے SECULAR & SOCIALIST STATUS میں مکمل مذہبی غیررواداری اور تشدد میں(RSS) بے انتہا اضافہ ہے اور مذہبی اقلیتوں کو کھلے عام بغیر کسی روک ٹوک کے نشانہ بنایا جارہا ہے جس میں بی جے پی اور راشتر یہ سویک سنگھ کے غنڈے ملوث ہیں اس کے ردعمل کے طور پر ملک کے سینکڑوں دانشور اور ادیبوں نے حکومت کی طرف سے دئےے گئے AWARDSواپس کر دئےے ہیں۔ ا س ضمن میں اپنے ورزا کی طرف سے خاص طورپر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ظلم اور ستم روا رکھنے کے گھناﺅنے عمل پر مودی نے مکمل چپ ساد ھی ہوئی ہے اور وہ کمال ڈھٹائی سے بیرون ملک دوروں میں بھارت کا سیکولر سوشلسٹ اور پر امن ملک ہونے کا پر چارکر رہے ہیں اوریقین دلاتے ہیں کہ بھارت عالمی قیادت کے لےے بالکل تیار ہے۔
بیرونی ممالک کے دورے سے پہلے اُن کا سفارتی مشن اُس ملک میں جلسے کی بھرپور تیاری کرتا ہے ۔ اُن کے پچھلے دنوں دوبئی کے دورے کے موقع پر ہونے والے جلسے میں تقریبا 50 ہزار کے قریب افراد نے شرکت کی۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ بھارتی وزیر اعظم صرف PUBLIC RELARTIONINGپر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سخت کاوشوں سے بھارت کامستقبل قریب میں ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کا یقین دلاتے ہیں اور اُن کی یہ حکمت عملی بہت موثر ثابت ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ ایسے ممالک میں اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہے ہیں جن کے ہمارے ساتھ بہت گہرے اور دیرینہ خوشگوار تعلقات قائم ہیں اور بھارت نے پاکستان کے خلاف بے حد موثر اور کامیاب سفارتی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اور وہ پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہےں۔ مثلاً پچھلے دنوں مودی کے سعودی عرب کے دورے سے پہلے بی جے پی کے جنرل سیکرٹری رام مدہاد نے کہا کہ ”ہم پاکستان کے ساتھ نمٹنے کے لےے اُس کے دوست ممالک کے دل جیتیں گے اور اس کام کی غرض سے تمام معاشی سفارتی اور جذباتی وسائل بروئے کار لائےں گے۔ اس ضمن میں مودی نے یو اے ای کا دورہ کیا۔ جہاں پر اُس کو غیر معمولی گرم جوشی سے خوش آمدید کیا گیا۔ یو اے ای میں تقریبا 2 ملین سے زیادہ بھارتی باشندے رہتے ہیں اور بھارت چین کے بعد اس ملک کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے یمن میں شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف کی جانے والی کارراوئیوں میں حصہ لینے میں کوئی دلچسپی نہ لی جب کہ پاکستان اُن ممالک میں سے ہے جو سعودی عرب سے خطیر مالی امداد حاصل کرتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی ایران کے ساتھ لمبی سرحد ہے لیکن ہماری حکومت کا یہ فیصلہ بہت مہنگا پڑ رہا ہے کیونکہ عرب ممالک سے ہمارا ملک بھاری امداد حاصل کرتا ہے۔ اس سلسلے میں یو اے ای کے خارجہ معاملات کے وزیر انور گرگاش نے ایک بیان میں کہا کہ یمن کے بارے پاکستان اپنی پالیسی کی بھاری قیمت ادا کرے گا۔ پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان اس کشیدگی کا بھارت نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اُس نے عرب ممالک سے اپنے سیاسی اور معاشی تعلقات کو وسعت دی اور دوسری طرف پاکستان نے پاک عرب تعلقات کو مزید خراب کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔ اس کو بھارت کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مودی نے دوبئی میں اپنی تقریر میں مزید کہا کہ ”دنیا میں آج یہ پیغام پہنچ گیا ہے کہ جو کو ئی ملک دہشت گردی میں ملوث ہے اُس کو سخت سزا دی جائے امیدکرتا ہوں کہ جن کے بارے میں (یعنی پاکستان) جو بات کہی جا رہی وہ اسے سمجھ گئے ہونگے“ اوربعد ازاں مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا جس نے پاکستان کو 2014میں 1.5 بلین ڈالر کی امداد فراہم کی تھی۔ وہاں وزیر اعظم ہند کا بہت ہی گرم جو شی سے استقبال کیا گیا اور اُس کو ملک کے سب سے بڑے سول اےوارڈ سے بھی نوازا گیا اور مسلم دنیا کے مذہبی رہنما سعودی عرب نے 2002ءمیں بھارتی ریاست گجرات میں مودی کے ہاتھوں سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کو بھی نظر انداز کر دیا ماضی میں پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں عرب ممالک کی بھرپور مدد حاصل رہی ہے لیکن بد قسمتی سے اب اس میں تیزی سے تبدیلی واقع ہو رہی جس سے پاکستان کو شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بھارت کی پاکستان کے خلاف موجودہ یلغار صرف عرب ممالک تک ہی محدود نہیں ہے وہ ہمارے دوسرے ہمسایوں ایران ، افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک میں بھی اپنی کارروائیوں میں ہمہ تن مصروف عمل ہے۔ نیز بھارت ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں مصروف ہے جو گوادرسے صرف 72کلومیٹر دور ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ کے مکمل ہونے پر بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک تک کاراستہ مل جائے گا دراصل بھارت چاہ بہار کو گوارد کے مقابلے میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔
قارئےن! بین الاقوامی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہو رہی اُن کے نتیجے میں پاکستان کو بقا اور سلامتی کے سلسلے میں درپیش خطرات میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہاہے۔ اس میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ہماری حکومت کی ناقص ، کمزور اور غیر دانشمندانہ حکمت عملی ہے۔ وزیر اعظم زیادہ وقت بیرونی ممالک کے دوروں پر رہتے ہیں جہاں وہ صرف اپنی پارٹی او رسیاست کی بات کرتے ہیں وہ اپنے ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دینے میں سرگرم عمل رہتے ہیں اور جب وہ ملک میں ہوں بھی تو اُن کا زیادہ وقت دکھاوے کے منصوبوں کی منصوبہ بندی اور تعمیر میں خرچ ہوتا ہے۔ رہی سہی کسرپانامہ لیکس کے حوالے سے ہونے والے واقعات سے نکل گئی ہے اور بھارت بہت تیزی سے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے اور ایک ایک کر کے ہمارے دوست ممالک کو ہم سے بدظن اور علیحدہ کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے اور یہ ایک بات ایک عام آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر ملکی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے۔ آمین