خزانوں سے لدی پانامہ لیک چھتیں

ہرقوم میں عروج و زوال کی منزلیں آتی ہیں۔ قوم اس وقت عروج پر ہوتی ہے جب لیڈر باکردار، دیانت دار اور باصلاحیت ہوں ۔ حکمران کرپٹ اور عیش پرست ہو جائیں اور زور اقتدار کی ہوس وباکی طرح پھیل جائے تو وہاں عذاب الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں سپارٹا دنیا کی سپرطاقت تھا۔ فیلڈ مارشل منٹگمری فاتح یورپ اپنی کتاب history of warfare میں لکھتا ہے عالمی جنگ کے دوران جب میں ڈلفی مندر کے کھنڈروں کے قریب سے گزرا تو اندر جاکر اس چبوترے پر جاکر بیٹھ گیا جہاں سپارٹا کے لیڈر نے بآواز بلند سوال کیا تھا کہ ’’کیا دنیا کی کوئی طاقت سپارٹا کو شکست دے سکتی ہے؟‘‘ جواب آیا ’’ہاں لگژریlaxury ۔ لگژری کے معنی ہیں عیش پرستی، جب کسی قوم کے لیڈر کرپٹ اور عیش پرست ہو جائیں وہ قوم روبہ زوال ہو جاتی ہے۔
قرآن میں ذکر ہے جب ہم کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس کے عیش پرست حکمرانوں کو اپنی روش بدلنے کا حکم دیتے ہیں لیکن وہ اپنی نفس پرستیوں میں برابر غرق رہتے ہیں تو پھر ہماری بات پوری ہو جاتی ہے اور ان کو تہس نہس کردیتے ہیں۔ (اسرائ: 16)
یہ بات محتاج بیان نہیں کہ جب حکمران اپنے قومی و ملی فرائض سے غافل ہوکر عیش و عشرت کی وادیوں میں کھو جاتے ہیں اور عوام کے حقوق کو پاؤں تلے روندتے ہیں تو پھر ان عیش پسند حکمرانوں کے ساتھ غریب عوام بھی مصیبتوں اور آفتوں میں گھر جاتے ہیں۔
1971ء میں ہمارے بعض نااہل، عیش پرست اور غدار لیڈروں کی وجہ سے پاکستان پر اتنا بڑا عذاب آیا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے کارکنوں نے مکتی باہنی سے مل کر مغربی پاکستانیوں کے لئے ذبح خانے کھول دئیے۔ مسلمان خواتین کے ننگے جلوس نکالے گئے انہیں رات کو ریپ کرکے مار دیا جاتا (کتاب blood and fire) بنگالی مسلمانوں نے بھارتی گوریلوں سے مل کر پاک فوج پر حملے کئے۔ پاک فوج کو ان بھارتی گوریلوں نے اتنا تھکا دیا کہ دس گنا بھارتی مسلح افواج کا مقابلہ نہ کرسکی۔ آج اسی مشرقی پاکستان میں محب وطن پاکستانیوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں اور ہم سوائے احتجاج کے کچھ نہیں کر سکتے۔
2۔ مغلیہ سلطنت کا زوال اس وقت شروع ہوا جب اکبر، جہانگیر، شاہجہان اورنگ زیب جیسے منتظم منصف اور پاپولر حکمرانوں کی جگہ محمد شاہ رنگیلا بادشاہ بن گیا، محمد شاہ رنگیلے کے 30 سالہ دور میں ہی امرا کرپٹ اور عیش پرست ہوئے۔ اسی دور میں نادر شاہ نے دلی کو تاراج کیا اور احمد شاہ درانی افغانستان سے ہندوستان پر بار بار حملہ آورہوا۔ ان دنوں مغل وزراء و امراء لوٹے ہوئے خزانے محلات کی چھتوں میں محفوظ کر لیتے تھے۔
بادشاہ رنگیلے کے بعد عالمگیر II تخت پر بیٹھا۔ عمادالملک اس کا وزیراعظم اور میر منو کی بیوہ مغلانی بیگم پنجاب کی ناظم تھی۔ وزیراعظم عمادالملک نے امراء کی شکایت پر مغلانی بیگم کو برطرف کر دیا اور لشکرکے ساتھ دلی لے آیا۔ بیگم نے خفیہ ہرکارے کے ذریعے احمد شاہ درانی کو ہندوستان پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی۔ خط میں اپنی مظلومیت اور وزیراعظم عمادالملک کی زیادتیوں کے علاوہ لکھا کہ ’’میرے علم کے مطابق میرے سسر قمرالدین جو میرمنوکے والد اور احمد شاہ رنگیلے کے وزیراعظم تھے ان کے محل میں کروڑہا روپے کے ہیرے جواہرات مدفون ہیں اور سونے کی اینٹیں چھتوں میں چنی ہوئی ہیں۔ باقی امراء کی چھتیں بھی خزانوں سے بھری ہیں۔ بادشاہ عالمگیر ثانی اس کے وزیر عمادالملک اور امراء میں ٹھنی ہوئی ہے۔ اگرآپ فوری طور پر حملہ کر دیں تو دلی کی بے انداز دولت آپ کے ہاتھ آئے گی‘‘ (پانی پت کی آخری جنگ انگریزی ترجمہ احمد شجاع پاشاہ)
یہ وہ دور تھا جب مغلوں کی مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتیں زوال کے آخری کنارے پر پہنچ چکی تھیں۔
بادشاہ احمد شاہ درانی نے ہندوستان پر حملے کا فیصلہ کرلیا۔ افغان فوج قندھار سے لاہور سے دلی پہنچی اور بغیر جنگ کئے شہر پر قابض ہوگئی مغلانی بیگم نے دلی دربار میں احمد شاہ درانی کی موجودگی میں تمام وزراء امراء اور اپنے سسر قمرالدین کے مدفون خزانوں اور ان کے محلات کی چھتوں میں چھپائے سونے کی اینٹوں ہیرے جواہرات کی نشاندہی کر دی۔
افغان فوجیوں نے وزراء امراء کی چھتیں اکھیڑکر خزانوں کے ڈھیر نکال لئے جنہیں وہ اونٹوں خچروں پر لاد کر افغانستان لے گئے۔ درانی نے پنجاب اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اس کا بیٹا تیمور شاہ پنجاب کا حاکم اور جہاں خاں سپہ سالار بنا دئیے گئے۔ نئے حکمران سکھوں کی یورش نہ دبا سکے ۔ ایسا وقت بھی آیا جب مغلانی بیگم کو قلعہ لاہور کے تاریک قید خانہ میں بند کردیا گیا جہاں اس نے وفات پائی۔
بادشاہ درانی نے مغل وزیراعظم عماد الملک کو فارغ کرکے اس کی جگہ دلی کے ایک معزز امیرکو وزیراعظم بنا دیا۔ معزول وزیراعظم عمادالملک نے مرہٹوں سے سازبازکرکے دلی پر حملہ کرا دیا۔ دلی فتح کرنے کے بعد مرہٹے لاہور کی طرف بڑھے اور قابض ہوگئے۔ احمد شاہ درانی کو واپس آنا پڑا جب ایشیا کی فیصلہ کن جنگ پانی پت کے مقام پر ہوئی۔
آج پاکستان کی صورت حال بادشاہ احمدشاہ رنگیلا اور جنرل یحیٰی خاں دور سے زیادہ سنگین دکھائی دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دور میں کرپشن، دہشت گردی انتہا کو پہنچ گئی۔ حکمرانوں بیوروکریٹس اور ان کے حواریوں نے ملکی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ لوٹی دولت منی لانڈرنگ سے غیر ممالک لے گئے کسی نے مغلانی بیگم کی طرح پانامہ آف شورکمپنیوں کی چھتوں میں دفن حکمرانوں اور خواص کے اربوں ڈالرز کی نشاندہی کردی۔
مطلوب وڑائچ لکھتے ہیں ’’پانامہ لیکس کے آفٹر شاکس جاری ہیں ابھی گزشتہ روز یار لوگوں نے دبئی لیکس کے نام سے ڈھائی ہزار مزید ٹیکس چوروں کا انکشاف کرکے سب کو ہکا بکا کردیا۔ ان میں شرفاء سیاست دان بیوروکریٹس ریٹائرڈ عسکری افسران فنکار تاجر سب ہی شامل ہیں۔ کینیڈا لیکس بھی سامنے آ رہی ہیں دوبئی لیکس کینیڈا لیکس کے سامنے پرچون کی چوری تصور کئے جائیں گے‘‘۔
جناب آغا امیرحسین لکھتے ہیں ’’نیب نے اپنی ایک ٹیم دبئی روانہ کی اور چند بڑے لوگوں کو نوٹس جاری کئے۔ وفاقی حکومت نے نیب کو دبئی میں تحقیقات کرنے سے روک دیا ہے اور صاف لفظوں میں کہا کہ دبئی میں فوری طور پر تحقیقات بند کی جائیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ کرپشن کے اس میگا سیکنڈل پر مٹی ڈال دی جائے‘‘۔ آغا صاحب لکھتے ہیں حکومت اپوزیشن کو بنکوں سے قرضے معاف کرانے والوں کو ڈرا دھمکا رہی ہے قوم پریشان ہے کہ محترم چیف جسٹس جو تقریباً روزانہ معاشرتی خامیوں اور کرپشن کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ اب جبکہ ان کے پاس اختیار آیا ہے وہ کیوں خاموش ہیں۔‘‘
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنی حفظ و ایمان میں رکھے… بعض پاکستانی سیاسی لیڈروں کے بھارتی خفیہ ایجنسی را سے رابطے ہیں۔ را ایجنسی ان سیاسی پارٹیوں کو کئی سالوں سے فنڈنگ کرتی آئی ہے۔ ان کے کارکنوں کو مکتی باہنی کی طرح بھارت میں ٹرینڈ کرکے کراچی بھیجا جاتا رہا۔ جہاں کئی سال قتل و خون کا بازار گرم رہا۔ بعض حکمرانوں اور صاحب ثروت لوگوں نے قومی خزانے سے اربوں روپے نگل لئے۔ ان کے گھروں اور کاروں کی ڈکیوں سے کروڑوں ڈالر نکل چکے ہیں۔
دو تین ڈویژن پاک فوج افغانستان سرحدوں پر برسرپیکار ہے۔ افغانستان نے بھی پاکستان پر حملہ کی دھمکی دی ہے کراچی بلوچستان میں فوج گوریلوں، دہشت گردوں کے خلاف نبردآزما ہے۔
ایسے سنگین حالات میں حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں کو مل جل کر ملکی سلامتی کی خاطر کوئی لائحہ عمل تیارکرنا چاہیے تاکہ دشمنوں کے بڑے حملوں سے پہلے پاک مسلح افواج کو مشرقی پاکستان کی طرح پھیلاکر تھکا نہ دیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن