”انصاف کے علمبردار ؟؟“

جب بھی کسی پاکستانی سے بات چیت ہوتی ہے تو وہ ضرور پوچھتا ہے کہ ہمارے حالات کب ٹھیک ہوں گے۔ میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہماری بد حالی کی اصل وجہ ہم خود ہیں ہم کسی کو موردِالزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ کیونکہ قرآن پاک میں سورة الرعد (آیت نمبر11) میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے کہ خدا اُس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت کو بدلنا نہ چاہیں۔ اس حوالے سے ہمیں کسی پیچیدہ Analysis یا ریسرچ کی ضرورت درکار نہیں۔ آئیے اس حوالے سے اپنا جائزہ لیں۔ اتحاد: یہ اُن تین سنہری اصولوں میں سے ایک ہے جو کہ ہمارے قائد نے ہمیں دئےے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم بلوچ ، پنجابی، پٹھان اور سندھی وغیرہ زیادہ اور پاکستانی کم ہیں۔دینوی حوالے سے بھی ہم لا تعداد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ ایک مولانا صاحب انگلستان سے تشرےف لائے اور پاکستان میں ایک مسجد میں واعظ کے دوران سامعین کو بتایا کہ وہ انگلستان کی ایک مسجد میں گئے تو انہوں نے وہاں مختلف فقوں کے افراد کو اکٹھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ یہ سنتے ہی مسجد میں موجود افراد نے اُن پر لعن طعن شروع کر دی۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر مولانا صاحب سے کہا کہ اُنہیں اس کا آخرت میں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ مولانا صاحب نے بتایا کہ انہوں نے کبھی کسی ایک فقے کے شخص کو دوسرے سے الجھتے نہیں دیکھا۔ اُس خطاب کے دوران چند افراد مسجد چھوڑ کر جانے لگے تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ آپ جلد بازی سے کام نہ لیں میری بات ختم ہونے دیں۔ انہوں نے کہا میں نے ایک ماہ کی کاوشوں کے بعد جب واپس آنے کا قصد کیا تو ”الحمد اللہ“ ہر فرقہ ایک دوسرے سے الگ ہو چکا تھا۔ یہ بظاہر ایک لطیفہ لگتا ہے لیکن درحقیقت اتحاد بین المسلمین نامی کوئی چیز ہم میں موجود نہیں ۔ عوامی فلاح و بہبود: عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ایک فعال اور جمہوری حکومت کے اوّلین فرائض میں شامل ہے ہمارے حکمران صرف اپنی اور اپنے عزیز واقارب کی فلاح میں دلچسپی رکھتے ہیںاس وقت ملک میں جو جمہوریت قائم ہے وہ ڈکٹیٹر شپ سے بدتر ہے۔ ہمارے ملک میں 96وزرا ہیں اور وہ آبادی کے تناسب سے روس ، بھارت ، چین اور امریکہ جیسے ہم سے زیادہ آبادی والے ممالک سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ایک وزیر پر سالانہ 16کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ 5000یونٹ بجلی مفت، 45ہوائی ٹکٹ اور ایک لاکھ روپیہ موبائل کا خرچ۔ قومی اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں اشیائے خوردنی کی قیمتیں اتنی کم ہیں کہ اس سے 50کی دہائی کی یا د تازہ ہو جاتی ہے ۔ پچھلے دنوں سیہون شریف کے علاقے میں جہاں سے اب تک سندھ کے 3وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں ۔ جب دھماکہ ہوا تو علاقے میں ہسپتال موجود نہ ہونے کی وجہ سے لاتعداد افراد لقمہ اجل بن گئے۔لوگ زخمیوں کو موٹر سائیکلوں پر لے کر جانے پر مجبور تھے۔ کیونکہ حکومت سندھ نے اس کا م کے لےے سرکاری گاڑیاں، ایمبولینس یا ہیلی کاپٹر مہیا کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ظاہر ہے اب ایک عام آدمی کے لےے پیسے خرچ کر کے کیا حاصل ہو گا۔ اس کے حق دار صرف وی آئی پی اوراُن کے عزیز و اقارب ہیں۔ عوام کے علاج معالجے کے لےے ملک میں معیاری ہسپتالوں کا فقدان ہے۔ جبکہ جنگلہ بس اور نیلی پیلی گاڑیوں کے پرو جیکٹس پر غریب عوام کے اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔ دراصل ہمارے حکمران تو اپنے علاج اور یہاں تک کہ طبی معائنے کے لےے بھی سرکاری خرچ پر بیرونی ممالک جاتے ہیں ۔ چنانچہ ملک میں اچھے ہسپتالوں کے قیام پر روپیہ پیسے خرچ کرنا اُن کے خیال میں ملکی وسائل کا ضیاع ہے۔ ایک اچھے ہسپتال کی تعمیر کے لےے صرف چندکروڑ روپے درکا ر ہوتے ہیں۔ دراصل مسئلہ وسائل کی کمی کا نہیں بلکہ حکومتی عدم توجہگی اور بے حسی کا ہے۔ عدل وانصاف: عدل و انصاف پر ایک نظر دوڑائیں تو کوئی معاشرہ عدل وانصاف کے بغیر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ اس حوالے سے ہماری کا رکردگی نہایت مایوس کن ہے۔ اللہ تعالیٰ سورة النسائ(4:135) میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو انصاف کے علمبردار اور خدا کے لےے گواہ نبو۔ اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد میں خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں ہی کیوں نہ آتے ہوں۔فریق معاملہ خواہ مالدار ہویا غریب اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے“ ہمارے ملک میں قانون صرف غریب کے لےے ہے۔ ایک مالدار اور طاقتور شخص پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ابھی حال ہی میں ڈاکٹر عاصم ، شرجیل میمن ، مولاناحامد سعید جن پر حج کی رقوم خرد برد کرنے کا شرمناک الزام تھا۔ ” باعزت“ بری ہو چکے ہیں سپُر ماڈل ایان علی نے 60لاکھ ڈالر ملک سے سمگل کیا ۔ اسے پکڑنے والے ایمان دار کسٹم افسر کو قتل کروا دیا گیا۔ اُس کے بچے اور بیوہ انصاف کے منتظر ہیں جو اُن کو کبھی نہیں ملے سکے گا۔ قارئین! ایک اسلامی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے وزیر اعظم نواز شریف اس وقت انصاف کی فراہمی کے علمبردار ہیں۔ مگر قانون کی بالا دستی کو مدنظر رکھا جائے تواحتساب ہر شخص کا ہو سکتا ہے چاہے وزیراعظم ہو یا کوئی اور عظیم شخصیت ۔اسی طرح اگر دیکھا جائے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں لٹکتا ہوا پانامہ کیس جس کے حتمی فیصلے کے آثار نظر آتے دکھائی نہیں دیتے۔ کہ وہی عدالت انصاف کی علمبردار ہے۔ پچھلے ہی دنوں ”ڈان لیکس“ کے سلسلے میں پیداہونے والے سیاسی حالات نہ صرف عوام اور حکومت کے درمیان خلیج اور کشیدگی پیدا کر رہے ہیں بلکہ عام انسان کے اعتماد کو ٹھیس بھی پہنچا رہے ہیں۔ حکومت وقت پر بار ہایہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تمام تر اداروں کو بر وقت مطلوبہ معلومات فراہم کرکے اپنے اعتماد کو بحال کرے۔ اپنے ذاتی مفادات کو مدنظر رکھنے اور محضوص شخصیات کو مفادات دینے کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ بین الاقوامی چیلنجوں کا مقابلہ کیا جائے عناصر اس وقت ہمارے خلاف برسر پیکار ہیں جو ہمارے محاذوں کے گرد گھیرا ہوئے ہیں ان کو ناکوں چنے چبوائے جائےں۔ بیرونی طاقتوں کے دباﺅ سے ماورا ہو کر کلبھوشن اور احسان اللہ احسان کو فوجی عدالتوں کے تحت سزا دے کر عوام کو انصاف فراہم کیا جائے جس کا تقاضا وہ اس وقت کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور بیرونی طاقتوںکے گٹھ جوڑنے ہماری ملکی ترقی کو مفلوج کر دیا ہے۔ ہمیں سازشوں کے تحت اندرونی معاملات میں ہی پھنسا یا جا رہا ہے۔ تاکہ بین الاقوامی سطح پر ہم ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں۔ خدا جانے کب حکومت وقت سیاسی لڑائیاں لڑنے کی بجائے عوام اور ملکی ترقی کا سوچے گی؟ کب خود غیر جانبداری سے سپریم کورٹ کو جواب دے گی؟ اور کب عام آدمی کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائے گی؟ جب کہ انصاف کی علمبردار تو اس وقت حکومت ہی وقت ہے۔

ای پیپر دی نیشن