”قومی سلامتی“

May 15, 2017

آج کل قومی سلامتی کے بہت چرچے ہیں۔ پہلے ہم بے چاری عوام کو کوئی یہ توبتائے کہ یہ قومی سلامتی ہوتی کیا ہے۔ قوم کی سلامتی سے متعلق کوئی پالیسی ہے اور قوم کو اس کا پتہ ہی نہیں۔ اس قومی سلامتی کا قوم کو تو بتایا جائے کہ کیا یہ واقعی قوم کی سلامتی سے متعلق ہی ہے۔ بے چاری عوام تو بس میڈیا پر ہی اس کا چرچا سنتے ہیں لیکن آج تک عوام کو یہ نہیں معلوم کہ ان کی ”سلامتی“ کی پالیسی بناتا کون ہے اور عمل کون کرتا ہے اور اصل بات یہ ہے ۔ کہ یہ ہے کیا بلا؟ جہاں تک راقم کے حافظے کی بات ہے۔ ۱۹۷۱ءمیں قوم بے چاری کی فلاح و بہبود اور اس کو بچانے کی خاطر اس ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس ملک کا جغرافیہ ہی نہ صرف بدل دیا گیا بلکہ کم کر دیا گیا۔ جبکہ اس دور میں حکومت بھی غیر سیاسی قوت کے ہاتھ میں تھی۔ لاکھ لاکھ اﷲ کا شکر کہ کوئی سویلین حاکم وقت نہ تھا وگرنہ آج تک ”قومی سلامتی“ کی دشمنی کا سرٹیفکیٹ ان کے ہوتا۔
آج تک سقوطِ بنگال پر بنی حمودالرحمٰن کمشن ایک راز ہے اور نہ ہی اس پر عمل کرانے کے لئے کوئی ٹویٹ کرتا ہے۔ ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ جب پنجاب کو سیراب کرنے والے دریا¶ں کے پانیوں کی تقسیم بھی انڈیا کے حق میں کی گئی ‘ بیاس ستلج راوی اپنی ملکیت سے دستبردار کرایا گیا توتب بھی سویلین حکومت نہ تھی۔ عوامی حکمران ہوتا تو عوام کی سلامتی کے بارے میں ضرور ایک بار سوچتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دس بار سوچا ہو تب جا کر قومی سلامتی کی بقا اس معاہدے میں پنہاں سمجھی گئی ہو۔ ہمارے کچھ افلاطونی‘ بقراط ٹائپ‘ سقراطی ذہانت کے حامل قومی سلامتی پر گہری نظر رکھنے والے اہل دانش ٹی وی سکرین پر ٹویٹ پر آئی ریجیکٹ کی حمایت میں اپنا خاص جمہوری اظہار کرتے ہوئے سنے گئے کہ اس ادارے نے دس بار سوچا ہو گا تب یہ لفظ استعمال کیا گیا۔ عوام نے تو ایک حاکم وقت کی جرنیلی زبان سے ببانگ دہل یہ بھی سنا کہ” سیاچن پر تو گھاس بھی نہیں اگتی ایسے علاقہ کا کیا فائدہ“
اس دور میں بھی قوم کو یقین دلایا گیا کہ قومی سلامتی اسی میں پوشیدہ ہے کہ قوم سیاچن کے جانے پر آنکھیں بندکر بیٹھے۔ ایبٹ آباد کے حساس ترین علاقہ میں اسامہ عرصہ دراز سے ہماری ایجنسیوں کی آنکھ میں دھول جھونکتے رہے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہماری سرحدوں کی کھلے عام خلاف ورزی کر کے امریکہ کے ہیلی کاپٹر آئے اور اس کے فوجی ایک خاص وقت تک آپریشن کرتے رہے اور دودھ میں سے مکھی کی طرح اسامہ کو مار کے لے گئے۔ ہماری قومی سلامتی پالیسی بے چاری ٹک ٹک دیدیم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی رہی۔ دنیا اور پاکستانی قوم انگشت بدندان رہی۔ مگر ہماری قومی سلامتی کے امین اداروں نے اس بیچاری پالیسی پر آنچ تک نہ آنے دی۔ اس واقعہ پر بھی کمشن بٹھایا گیا جس نے اپنی رپورٹ مرتب کر کے موجودہ حکومت کو تھما دی مگر وطن اور قومی سلامتی سے محبت کرنے والے کسی جمہوریت پسند بقراط و سقراط کے کان پر جوں تک نہیں رینگی کہ وہ میڈیا پر یا کسی ایک ٹویٹ کے ذریعہ ہی حکومت کو یاد دلائے یا مطعون کرے کہ اسامہ آپریشن کی رپورٹ کو جلد از جلد شائع کیا جائے اور اس کے کرداروں کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے جس کی فرمائش نیوزلیکس کے ملزموں کے بارے میں شدومد سے کی جا رہی ہے۔ کیا اس حساس ترین رپورٹ کے شائع ہونے سے قومی سلامتی کو پھر کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟
اعلیٰ ترین ملکی عدالت کے معزز ترین تین ججز جس معاملے پر فیصلہ دیتے ہیں کہ قانون کے مطابق تحقیق کرنا ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں اور یہ کہ ہم کس قانون کے تحت کسی بھی ملزم سے اپیل کا حق چھین سکتے ہیں۔ عین اسی وقت دو ججز صاحبان نہ صرف وقت کے وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دے دیتے ہیں بلکہ ۲۰ کروڑ عوام کے وزیراعظم کی عدالتی تضحیک کی گئی۔ دنیا نے مذاق اڑایا مگر شکر ہے کہ ہماری قومی سلامتی کی پالیسی کے محافظوں نے اس پر آنچ تک نہ آنے دی۔
حقیقت یہ ہے کہ راقم سمیت عام و خاص کسی پاکستانی کو معلوم نہیں کہ قومی سلامتی ہے کس چڑیا کا نام۔ یہ کیا ہے اگر نیوز لیکس سے متعلقہ خبر قومی سلامتی کے برعکس تھی تو اس کا اس قدر چرچا کیوں کیا گیا۔ کیوں دنیا بھر میں اس کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔ کیوں دنیا میں اپنے ملک کے حکمرانوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ کیوں یہ ثابت کرایا جا رہا ہے کہ سویلین ہی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ ایک بار قومی سلامتی کی پالیسی کی عوام میں تشہیر کر دی جائے تاکہ قوم کو تو معلوم ہو کہ کون کون ہماری سلامتی کی راہ میں حائل ہے اور کون اس کا حقیقی محافظ ہے۔ اس طرح قوم خود اپنی سلامتی کے برعکس چلنے والوں کا ووٹ کے ذریعہ محاسبہ کرنے کے قابل ہو گی ۔ سچ اور جھوٹ میں تمیز کر سکے گی۔ وگرنہ تو قومی سلامتی بے چاری اپنا مذاق اسی طرح اڑواتی رہے گی ۔

مزیدخبریں