بارڈر ملٹری پولیس کو پنجاب پولیس میں ضم کرنے کی سازشیں؟

بارڈر ملٹری پولیس کی بنیاد ۱۶۹۰ءمیں انگریز حکمرانوں نے رکھی جو پہاڑی سلسلہ کوہ سلیمان کے دواضلاع ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے تین سو کلومیٹر پر محیط علاقے جو صوبہ بلوچستان‘ خیبر پختون خواہ اور سندھ سے پنجاب کے میدانی علاقوں سے ملحق ہیں۔ ان اضلاع کا باون فیصد علاقہ قبائلی علاقہ کہلاتا ہے جو ہر دو اضلاع کی نصف آبادی سے زائد ہے۔ بارڈر ملٹری پولیس اس علاقہ کی فرنٹ لائن کادرجہ رکھتی ہے جو نہ صرف چھ معروف قبائل کے درمیان امن و امان کی ذمہ دار ہے بلکہ ان علاقوں میں ڈی جی سیمنٹ‘ او جی ڈی سی دیوان گروپ اور اٹامک انرجی کمشن کی تنصیبات کا تحفظ بھی اس فورس کی اولین ترجیح ہے۔ معدنی وسائل سے مالا مال یہ علاقے نصیب والوں کے حصہ میں آتے ہیں۔ بلوچستان سے شورشیں جن کے تانے بانے دشمن ممالک اور کچھ اپنوں سے ملتے ہیں وہ انہیں ذخائر کے حصول کیلئے سرگرداں ہیں جبکہ ہماری بے یارومددگار فورس کو جو اسلحہ ۱۹۳۵ میں دیا گیا وہ اب استعمال کے قابل نہیں ہے۔ باوردی ملازمین کی تعداد ۴۳۵ سے کم ہو کر ۳۲۳ رہ گئی ہے اور نئی بھرتی موقوف کردی گئی جو باہمی قبائلی چپقلش کا نتیجہ ہے۔ ایل ایم جی گن نصب کرنے کیلئے کوئی گاڑی نہیں صرف پانچ گاڑیاں جو ۴+۴ چھ ہزار مربع علاقے کی دیکھ بھال کیلئے ہیں۔ میٹل ڈیٹیکٹر‘ بلب پروف جیکٹس‘ واک تھرو گیٹ تو محض خوا ب ہے۔ ان جوانوں کیلئے جو اس فورس میں مختلف چوکیوں ‘ تھانوں اور گزرگاہوں پر تعینات ہیں ۔ چھ تھانوں اور ۱۹ چوکیوں کا وجود تک نہیں۔ وائرلس سسٹم انتہائی فرسودہ اور ناکارہ ہے۔ حالانکہ عالمی سازشوں اور ملحقہ صوبوں کی صورتحال کے پیش نظر بی ایم پی کو دور حاضر کے ہم آہنگ بنایا جانا چاہئے تھا۔ افغانستان کی صورتحال اور جنگی جنوں کے پیش نظر اس فورس کو مکمل طور پر ہتھیاروں سے لیس اور بااختیار بنانا چاہئے تھا۔
اپنی پہلی قسط میں گزارش کی تھی کہ علاقے کے تمندار ہی دراصل اس فورس کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ آخر بھرتیوں میں کیا رکاوٹ ہے۔ اسلحہ کی خریداری کیوں نہیں ممکن بنائی جا سکی۔ تمام تمندار صاحبان اپنی مرضی کے کام اور پراجیکٹ تو منظور کروا لیتے ہیں اور حکمرانوں کے ساتھ سیلفیاں بنوا کر خوش و خرم نظر آتے ہیں جبکہ پہاڑی سلسلہ میں ہمارے جوان جدید اسلحہ اور جدید مواصلاتی نظام سے محروم ہیں۔ اس فورس کا ایک رسالدار ہوتا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہاں پر دو بلوچ رسالدار بنے ہوئے ہیں جس فورس کے پاس اسلحہ بارود نہ ہو‘ کوئی ٹریننگ نہ ہو‘ تلاشی کا کوئی ذریعہ نہ ہو۔ اس فورس کے دو رسالدار سمجھ سے بالاتر ہیں۔ نئی بھرتی پر عرصہ دراز سے پابندی ہے۔ اسی فورس کے لوگ ریٹائر ہو کر یا میڈیکل بنیادوں پر ریٹائر ہو کر حکومتی پالیسی کے مطابق ۱۷- اے کے تحت اپنے بیٹے کو ملازمت دلا دیتے ہیں اور اسی طرح علاقہ میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بلوچ قبائل کے نمائندگان کا ڈیرہ غازیخان کا ایک اجتماع ہوا اور ایک گھنٹہ تک ملتان راجن پور روڈ کو بند کئے رکھا جن کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ بی ایم پی کو پنجاب پولیس میں ضم نہ کیا جائے ورنہ اس طرح بلوچی تشخص مجروح ہو گا۔ اس اجتماع میں لغاری سرداروں کی طرف سے اور لغاری قبیلہ کی نمائندگی مقامی یونین کونسل کے وائس چیئرمین اور لغاری سرداروں کے میڈیا کوارڈینیٹر فیاض لغاری نے کی۔ بزدار‘ قیصرانی اور ڈیرہ غازیخان ضلع کے دیگر تمنداروں کے نمائندگان شریک ہوئے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ آخر بلوچ اقوام کے صف اول کے سردار اس احتجاج میں شامل کیوںنہیں ہوئے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ وہ محض وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کر کے اپنے مطالبات ان کے سامنے رکھیں اور بارڈر ملٹری پولیس کو نئے انداز سے مزین کیا جائے جدید اسلحہ سے آراستہ کیا جائے۔ جدید مواصلاتی سسٹم سے ہم آہنگ کیا جائے۔ تھانوں کی تعمیر اور چوکیوں کی ازسر نو تعمیر کی جائے۔ جدید سواریاں فراہم کی جائیں‘ ٹریننگ کا درست بندوبست کیا جائے۔ اگر یہ ساراکچھ ممکن نہ ہو تو انگریز کی اس آخری نشانی کو بھی حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ نہ ہو گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔
ڈیرہ غازیخان اور ضلع راجن پور کے معززین‘ تمندار‘ سردار کیا نہیں جانتے کہ جن راستوں سے دیگر ملحقہ صوبوں سے سمگلنگ ہوتی ہے اور قیمتی کاریں براستہ ڈیرہ غازیخان ‘ راجن پور‘ پنجاب کے دارالخلافہ لاہور پہنچتی ہیں راستے میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو روک لیا جائے تو اعلیٰ عہدیداروں کے فون بہت نچلی سطح پر آتے ہیں اور پھر سب کو آزاد کر دیا جاتا ہے۔ ڈیرہ غازیخان میں میدانی علاقوں کے ”معززین“ ڈیرہ غازیخان کے ذریعے انہیں راستوں سے چوری کی کاریں اور موٹرسائیکل اندر پہاڑ بھیج دی جاتی ہیں اور ”بھونگا“ وصول کر کے کار اور موٹرسائیکل مالکان کو واپس کردئے جاتے ہیں۔ اب براستہ سخی سرور تو یہ کاروبار رینجرز کی موجودگی کی وجہ سے تقریباً بند ہو چکا ہے لیکن تحصیل تونسہ میں اور ڈیرہ غازیخان کے علاقہ زندہ پیر اور وڈور‘ بیلہ کے راستے شاہ علی میر تک پہنچائی جاتی ہیں اور پھر جس کو واپس کرنی ہو تو واپس ہو جاتی ہیں کیونکہ اس میں بلوچ سرداروں کے بااثر لوگ شامل ہوتے ہیں۔ فورٹ منرو کی بات کریں تو موسم گرما کے سیزن میں ہوٹلوں اور سرکاری رہائش گاہوں میں کیا نہیں ہوتا کیا اعلیٰ حکام اس سے لاعلم ہیں۔
اہل دانش جانتے ہوں کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی سب سے بڑی ایکٹو جنگی سرحد ہے جو کہ ۳۶۰۰ کلومیٹر طویل ہے اور بدقسمتی سے پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک ہے جو بیک وقت تین خوفناک جنگی ڈاکٹرائنز کی زد میں ہے۔ پہلے نمبر پر گولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن ہے جو انڈین جنگی حکمت عملی ہے۔ دوسری امریکن ایف پیک ڈاکٹرائن ہے جس کے تحت افغان جنگ کو بتدریج پاکستان کے اندر لے جانا ہے اور پاکستان کی آرمی کے خلاف گوریلا جنگ شروع کرانی ہے۔ اس پر تو پھر بات کی جائیگی لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب دشمن چاروں طرف ہمیں گھیر رہا ہو اور ہماری بارڈر ملٹری پولیس بے دست و پا ہو بلکہ دونوں طرف سمگلنگ کے ساتھ انسانی سمگلنگ بھی جاری ہو توپھر کیا ہو گا۔ یا تو اسے م¶ثر اور بااختیار کیا جائے‘ اسلحہ سے لیس مواصلاتی نظام بہتر ہو‘ پابندی اٹھائی جائے جو ایک عرصہ سے عائد کی گئی ہے۔ رسالدار کا فیصلہ کیا جائے تاکہ ایک رسالدار کی موجودگی میں یکسوئی کے ساتھ سرحدی علاقوں کا تحفظ اور دفاع کیا جائے۔ پولیٹکل اسسٹنٹ جو ڈیرہ غازیخان ضلع کے پہاڑی علاقوں اور بی ایم پی کا کمانڈنٹ ہوتا ہے وہ انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہے۔ اگرچہ وہ ملازمت میں نئے وارد ہوئے ہیں لیکن وہ سب کچھ کرنے کے اہل ہیں۔ یہاں بھی وہی بات کہ ہر بات کاجواب مقامی سردار کو دینا پڑتا ہے۔ بھری میٹنگ میں اس سے ایسے بات کی جاتی ہے جیسے پی اے صاحب ان سرداروں کا ملازم ہو۔ علاقے میں اگر افسران جاتے ہیں تو مقامی دفعدار‘ نائب دفعدار موجود نہیں ہوتے اور سب سے پہلے وہ علاقے کے سردار سے رابطہ قائم کرتا ہے تاکہ حاضری ہو سکے۔ آخر میں یہ فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے‘ علاقے میں ریفرنڈم کرایا جائے کہ ایسی فورس کو پنجاب پولیس میں مدغم کر دیا جائے یا نہیں۔ عوام کی اکثریت پر فیصلہ دیا جائے یا پھر کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔ کل ایف آئی آر اور فیصلہ جات دیکھ لئے جائیں ویسے تو یہا ں امن ہی امن ہے اگر امن ہے تو پھر انعامات سے نوازا جائے اور اگر ”مریدانکانی“ جیسے لوگوں کو یہ فورس پال رہی ہے تو ایسی فورس کی چنداں کوئی ضرورت نہیں اور بیک جنبش قلم اس فورس کا خاتمہ کر دیا جائے کیونکہ چند سردار یہی چاہتے ہیں ‘ فورٹ منرو جانے والے کی بی ایم پی کی طرف سے کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ شہری اور نام بلوچی کی وہاں اہمیت نہیں ہے۔
فورٹ منرو کی ترقی سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آنے والے سالوں میں یہ ایک خوبصورت ریزارٹ ہو گا۔ عام آدمی کو تمام سہولتیں میسر ہونی چاہئے نہ کہ وہ شخص پریشان واپس آئے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اس فورس کو پولیس میں مدغم کر دیا جائے تاکہ صوبائی پہاڑی سرحدی علاقوں میں امن اور استحکام قائم ہو سکے۔

ای پیپر دی نیشن