مکرمی! پاکستان میں عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور انہیں لوٹ کر خود عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے کسی ایک جماعت سے تعلق نہیں رکھتے ، ملک کی ساری جماعتیں ، الا ماشاءاللہ اس میں برابر کی شریک ہیں۔ 70 سال کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے خواہ برسراقتدار ہوں یا حزب اختلاف میں ، ملک کے بائیس کروڑ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے کے لےءآج تک کوئی قانون سازی کی نہ عملی اقدامات کئے لیکن اپنے ذاتی و گروہی مفادات کے لئے وہ سب یکجا اور ہم آواز نظر آئے۔ اسے سیاسی جماعتوں کے درمیان خاموشی سے طے پانے والا این آراو کہا جا سکتا ہے۔ عوام مطالبہ کر رہے تھے کہ انتخابی قوانین میں ترمیم کرکے صرف صاف ستھرے کردار کے حامل صادق اور امین امیدواروں کو اسمبلیوں میں بھیجنے کا راستہ ہموار کیا جائے لیکن سیا سی جماعتوں کے کارنیل نے اس کے بالکل برخلاف الیکشن ایکٹ 2017ءمنظور کیا جس کے تحت امیدواروں کو اپنے حلف نامے میں لازمی طور پر جو انیس اعلانات کرنے پڑتے تھے انہیں واپس لے لیا گیا ہے۔ اب خواہ کوئی ٹیکس چورہو، قرضہ خور ہو، دوہری شہریت کا حامل ہو یا اس پر کسی بھی جرم کا الزام ہو، اسے اپنے کاغذات نامزدگی میں ان میں سے کسی بھی برات کا حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ وہ دھڑلے سے انتخابات میں حصہ لے کر ”عوامی نمائندگی“ کا تاج اپنے سر پر سجا سکتا ہے جس کے بعد اسے مزید کرپشن ، قرضے ہڑپ کرنے ، لوٹ کھسوٹ میں حصہ لینے اور دیگر بدعنوانیوں کا موقع مل سکتا ہے ۔ اس پر طرہ یہ کہ اعلیٰ عدالتوں کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ بھی آئین و قانون کے تحت ثابت ہو جانے کے باوجود کسی کو چور اور ڈاکو نہ کہہ سکیں ۔ (میاں مقبول صدیق، لاہور )