جبل النور پر غار حرا میں محمدﷺتنہا تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نے حاضری دی اور کہا ”پڑھو“ خضرت محمدﷺ نے جواب دیا”میں پڑھ نہیں سکتا“ جبرائیل علیہ السلام نے زور دے کر کہا ”اپنے رب کا نام لے کر پڑھو جسے نے عالم کو پیدا کیا جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا اور جس نے انسان کو وہ علم دیا جس سے وہ پہلے واقف نہ تھا“ آپﷺ خاموش رہے تو جبرائیل علیہ السلام نے زور دے کر کہا ”پڑھو“ انہوںنے پھر کہا ” کہ میں پڑھنا نہیں جانتا“ اس طرح متعدد بار جبرائیل علیہ السلام انہیں کہتے کہ پڑھو اور آپ ﷺ اپنی مجبوری بیان کرتے کہ وہ پڑھنا نہیں جانتے تو جبرائیل علیہ السلام نے انکے جسم کو اتنے زور سے بھینچا کہ ان کی قوت برداشت جواب دیتی ہوئی محسوس ہوئی تیسری مرتبہ بھی جب جبرائیل علیہ السلام نے یہی انداز اختیار کیا توآپ ﷺ سمجھے کہ اب موت قریب ہے لیکن اسکے فورا بعد ہی جبرائیل علیہ السلام نے ا پنی گرفت ڈھیلی کر دی۔ انکے جانے کے بعد آپ ﷺ کو یوں محسوس ہوا کہ کوئی تحریر یا پیغام ان کے اندر ثبت ہوگیا ہے پیغام کیا تھا وہ اس سے لاعلم تھے مگر وہ اس کا وزن محسوس کررہے تھے۔یہ سب کچھ اتنا غیر متوقع اتنا عجیب و غریب اور اتنا اچانک تھا کہ آپ ﷺ کے وہم گمان میںبھی نہیں تھا۔کلام ربانی کی جلالت اور تمکنت سے وہ لرزہ براندام تھے اور اس واقعے کے ایک ایک پہلو پر غور کرکے اسے اپنے دائرہ فہم میں لانے کی کوشش کررہے تھے۔ مگر گتھی تھی کہ کسی طرح سلجھنے میں نہیں آرہی تھے مکہ میں وہ حسن اخلاق کا اعلی وافضل ترین نمونہ تسلیم کیے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے چالیس سال اس متنانت ، سنجیدگی اور شائستگی سے گزارے تھے کہ کسی سے تلخ کلامی تک کی نوبت نہیں آئی تھی چہ جائیکہ کسی کا اس سختی سے بھینچنا! یہ تجریہ ان کیلئے قطعی ناقابل توجیح تھا اور کلام اس کی سطوت نزول کی تناظر میں ، جوخود اپنی جگہ ایک معمہ بنا ہوا تھا۔ یہ نامانوس سلوک انہیں ناروا معلوم ہوا انکے ذہن میں سوچ کی ایک یہ لہر بھی اٹھتی تھے کہ یہ عقدہ جتنا حیرت انگیز اور ناقابل فہم تھا ہوسکتا ہے کہ اس کا حل بھی انہونا اور خلاف معمول ہو! ہوسکتا ہے کہ اس میں تشویش کی کوئی بات ہی نہ ہو بلکہ سب کچھ جو بظاہر جتنا پریشان کن اور تکلیف دہ محسوس ہورہا ہے اتنا ہی خوش آئند اور نیک انجام ہو۔پھربھی اس محیر العقول تجربے کے انجانے مضمرات سے ان کا سارا بدن لرزاں تھا۔ اس کیفیت میں لرزتے، کانپتے غار حرا سے باہر آئے اور حیرت کے عالم میں آہستہ آہستہ کوہ حرا سے نیچے اترنے کا راستہ تھا ابھی نصف راستہ بھی طے نہیں کیا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام انہیں دوبارہ نظر آئے اس بار وہ اپنی اصل شکل میں تھے اور افق پر کھڑے تھے شمال، جنوب، مشرق اور مغرب آپﷺ جس سمت بھی رخ کرتے انہیں موجود پاتے پھر ایک بار ان کی آواز سنائی دی ”محمدﷺ!“تم اللہ کے رسولﷺ ہو اور میں جبرائیل امین ہوں“ حیرانی اور پریشانی کے اس عالم میں وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے آپﷺ کا سارا بدن کانپ رہا تھا گھر پہنچتے ہی بستر پر لیٹ گئے اور کئی کمبل اپنے اوپر اوڑھ لیے۔ سر، منہ سب کو ڈھانپ لیا۔ اللہ تعالی نے اس موقع پر انہیں ”مدثر“ کہہ کر پکارا تھا۔ مدثر یعنی چھپنے والا، اپنے آپ کو ڈھانپے والا ۔ رب ذوالجلال و الاکرام کو تو علم تھا کہ اس نے کیا کیا ہے اور کیوں کیا ہے۔اس کا پیغام پہنچنے پرحضرت محمدﷺ کی جو حالت ہوئی تھی اور اس محیر العقول روحانی تجربے کے بعد وہ جس کیفیت سے دو چار ہوئے تھے وہ بھی اللہ جل شانہ کے علم میں تھا۔ لیکن یہ سب کچھ ایک خیر عظیم کی خاطر ہورہا تھا اور ناگزیر تھا ادھر آپ ﷺ کے دل کا یہ حال تھا کہ اس واقعے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ اپنے آپ کو کمبلوں میں سمیٹے اسکے رموز و نکات ، اس کی توجیح اور توضیح میں مصروف مجسم سوال بنے ہوئے تھے یہ رویت واقعی منجانب اللہ تھی یا شیطان نے انہیں دھوکہ دیا تھا۔ایسا تو نہیں کہ فی الواقع کچھ بھی نہ ہو اور انکے ذہن نے از خود کچھ ہیولے کھڑے کردیئے ہوں مگر کپکپی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ انہوں نے کچھ اور کمبل اوڑھ لیے اتنے میں خدیجہؓ آگئیں ۔ آپ ﷺ نے انہیں شروع سے لےکر آخر تک سارا واقعہ تفصیل سے سنایا ۔رب کریم نے خدیجہؓ کو بڑی بصیرت سے نوازا تھا۔ انہوں نے اپنے شوہر نامدار کو تسلی دی ان کا خوف ختم کرنے کی کوشش کی انکے خدشات دور کرنے کیلئے دلائل دیے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوںنے ساری صورت حال کا ادراک کر لیا تھا اور اس وقت جب حضور اکرم ﷺکو بھی یقین نہیں تھاکہ کیا ہوا ہے کچھ ہوا بھی ہے یا نہیں۔ وہ اس واقعے کی صحت پر ایمان لے آئیں۔ انکے ایمان نے رسول اکرم ﷺ کو حوصلہ دیا۔ حضرت خدیجہ ؓ نے ان سے کہا اگر اللہ تعالی واقعی رحیم و کریم ہے اور اپنے بندوں کا خیال رکھنے والا ہے تو وہ ایک نیک اور سچے انسان کو کبھی کسی عذاب میںمبتلا نہیں کرےگا۔ اور وہ ساری رات حضورﷺکے ساتھ جاگتی رہیں اور ہر لمحے بات ان کو جبرائیل علیہ السلام کے الفاظ دہرا دہرا کر باور کراتی رہیں کہ آپﷺ واقعی اللہ کے رسول ﷺ ہیں یہ تھی پہلی وحی جو اللہ رب العزت نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے پاک رسول ﷺ پر نازل فرمائی ۔ اس مناسبت سے اس رات کو لیلة القدر کہتے ہیں۔ قوت و جبروت کی رات، عظمت و جلالت کی رات،اس رات اللہ غفورورحیم نے انسان کو روشنی عطا کی اور اس پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمایا۔ اس رات رب کریم نے جبرائیل علیہ السلام کو کرہ ارض پر بھیجا ، اس رات اس نے اپنے رسولﷺ کو اپنا پہلا پیغام پہنچایا۔ وہ رات حضرت خدیجہؓ کے ایمان لانے کی رات تھی۔ اس مناسبت سے اس عظیم و برگزیدہ خاتون کو ام المومنین کا لقب عطا ہوا۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ رات کب آتی ہے۔ یہ بجا کہ یہ رات رمضان المبارک میں ہی آتی ہے مگر کب‘ کوئی نہیں جانتا؟ کچھ کہتے ہیں سترہویں کی رات کچھ کا خیال 23ویں اور کچھ کہتے ہیں 25ویں یا27ویں۔ تاہم اس بات پر سب متفق ہیں کہ یہ ماہ رمضان کے آخری پندرہ یا دس راتوں کی ایک طاق رات ہے۔ کوہ حرا میں واقع غار حرا کو جو ممتاز وممیز مقام حاصل ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حرا کی بلندی پر کھڑے ہوکر دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ساری کائنات جامد وساکت ہے نہ کوئی حرکت ہے ، نہ آواز بس اللہ بول رہا ہے اور بندہ سن رہا ہے۔