”کچھ باتیں“ کچھ یادیں“ سید باضمیر جعفری کی!

قارئین دو دن ہوئے 12 مئی کو کئی ملی نغموں کے خالق، ممتاز شاعر، مزاح نگار بلکہ نابغہ روزگار، سراپا شفقت و پیار سید ضمیر جعفری کی برسی گزری ہے۔ وہ ابدیت کی راہ پر کیا روانہ ہوئے کہ شگفتگی اور مزاح کا ایک عہد ختم ہو گیا، اپنی بے دریغ محبتوں، بے لوث شفقوں اور بے ریا قہقہوں سے لاکھوں دلوں کو فتح کرنے والے جعفری صاحب آخر کار موت کے ہاتھوں مفتوح ہو گئے ان جیسے سادہ و درویش صفت انسان نے ہمارے روحانی فلسفے کے مطابق عملاً یہ ثابت کردیا کہ دلوں کو فتح کرنے کیلئے کسی جنگی ہتھیار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کوئی اعلی عہدہ درکار نہیں ہوتا یہاں تک کہ کھرے جذبے کی ترسل کے لئے تو الفاظ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی آپ کسی کے بارے میں اپنی سچی سوچ کو شدید کر لیں آپ کو وہاں سے ویسا ہی جواب آ جائے گا وہ شاید یہی گرجان گئے تھے تبھی اپنے لاکھوں مفتوحین پیدا کر لئے سب کے بارے میں انہوں نے اچھا سوچا، سب سے ہمیشہ شفقت بھری باتیں کیں، سب لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی پھر یوں ہوا کہ ان کی نیک نیتی اور نیکی کی ترسیل بلاہتھیار سب دلوں تک پہنچنے لگی، کشتوں کے پشتے لگنے لگے، ہر دل فتح ہو گیا، ہر لب پر ان کا نام آ گیا، ہمارے ساتھ ان کی شفقت پدری اور ان کے ساتھ ہماری عقیدت کی عمر پچیس سال پر محیط ہے ایک مدت سے ہم ان کی شگفتہ تحریر و تقریر کے اسیر تھے وہ بھی غالباً ہماری طنز و مزاح پر مبنی تحریریں ادھر ادھر سے کبھی کبھار پڑھتے رہتے تھے، پہلی ملاقات کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک روز اچانک ان کا فون آ گیا، حال احوال پوچھنے کے بعد فرمایا بی بی آپ کی شگفتہ تحریریں مسلسل نظر سے گزر رہی ہیں آخر ایک خاتون ہو کر آپ مزاح کیسے لکھ رہی ہیں؟ اس پر ہم نے کہا (ان دنوں ملک میں مارشل لاءنافذ تھا) آپ کا کیا خیال ہے اگر ہمارا ملک مارشل لاءکے بغیر نہیں چل سکتا تو مزاح بھی آپ تین فوجی مزاح نگاروں کے سوا نہیں پنپ سکتا؟ ویسے تو میرے نام کا مخفف بھی مارشل لاءہی بنتا ہے۔ لمبا قہقہہ لگا کر بولے۔بس آج یہی کچھ سننے پوچھنے کیلئے ہم تینوں کا آپ کی طرف آنے کا ارادہ ہے یعنی جنرل شفیق الرحمن، کرنل محمد خان اور میں آپ کی طرف آ رہے ہیں۔ ہم نے کہا ”موسٹ ویلکم“ مگر آپ کے لہجے سے تو لگتا ہے غصے میں مولا بخش سمیت آ رہے ہیں تاکہ ہماری خبر لے سکیں کہ کہاں ہم بے بس خواتین اور کہاں حس مزاح؟ یہ سب وہاں آ کر طے ہوگا (مشتاق احمد یوسفی ممتاز مزاح نگار ساتھ نہ آ سکے البتہ اس ملاقات کے چند روز بعد بطور خاص کراچی سے مجھے ملنے آئے) بہرحال جعفری صاحب وقت پرتشریف لائے ان کے ساتھ چوتھے صاحب مزاح گو شاعر دوست بھی تھے جو لنڈن سے آئے ہوئے تھے یہ غلام علی بلبل تھے ان سے تعارف پر ہم نے کہا۔ جعفری صاحب ہم لغاری لوگ تو شاہین صفت ہوتے ہیں آپ ہمیں بلبلوں سے ملوا رہے ہیں؟ ہنس کر بولے شکر ہے تم سے مل لیا ورنہ اس دنیا سے محروم ہی چلا جاتا بلکہ باقاعدہ ضائع ہو جاتا۔
بہرحال نشست کئی گھنٹے جاری رہی ہمارے شوہر بھی ساتھ شامل رہے، کمرہ قہقہوں سے بھر بھر جاتا رہا۔ وہ دن جاتا ہے اور پھر ان سے دائمی جدائی کا دن آتا ہے وہ ہمارے گھر کا فرد بن کر رہ گئے سینکڑوں بار میرے پاس آئے، ملک کے اندر رہ کر ہر دوسرے تیسرے دن ہمارا حال پوچھنے کا دائمی وعدہ پورا کرتے رہے، امریکہ جاتے تو وہاں سے بھی ضرور فون کرتے ایک بار امریکہ سے فون آیا ہم نے کہا۔ آپ کی آواز نہیں آ رہی اونچا بولیں آواز کو مزید آہستہ کرکے فرمایا۔ چپ رہو کسی کا فون ہتھے چڑھ گیا ہے خیال آیا پاکستان میں چوری چوری تمہارا اور تمہارے اہل خانہ کا حال پوچھ لوں۔ اللہ اللہ نایاب مخلص ہستیاں اب کہاں بستیاں ہیں؟ بہرحال سمجھ نہیں آ رہی اتنے سالوں پر محیط جعفری صاحب کی کیا کیا یاد، یاد رکھی جائے اور کیا کیا بات بھولنے کی کوشش کروں دونوں کاموں پر دل و دماغ کا بہت زور درکار ہے اور یہ طے ہے جن ہستیوں سے عقیدت رکھی جاتی ہے وہاں سارے زور بے زور ہو جاتے ہیں۔ آج پوری قوم دعا گو ہے کہ اللہ تعالی جعفری صاحب کو غریق رحمت کرے آپ جب علاج کیلئے امریکہ گئے تو میں مسلسل فون اور ای میل کے ذریعے براہ راست ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہی صفوت علی صاحب بھی (امریکہ میں جعفری صاحب کے بے حد گہرے دوست اور میزبان) امریکہ سے مجھے ہر روز فون کرکرکے تازہ ترین صورتحال سے باخبر رکھتے رہے۔ امریکہ جانے سے پہلے مجھے ملنے تشریف لائے تو مجھے لگا بے حد اداس ہیں چائے کیلئے جب میں ٹرالی لگوانے کچن میں گئی تو وہ بھی میرے ساتھ اٹھ آئے اور میرے ساتھ ٹرالی پر چیزیں رکھوانے لگے۔ ساتھ ساتھ باتیں بھی کرتے جاتے تھے ایسا لگتا تھا وہ میرے پاس آنے کے بعد ہر لمحہ میرے ساتھ بات کرنا چاہتے تھے اور وقت ضائع نہ کرنا چاہتے تھے مجھے معلوم نہ تھا وہ آخری بار میرے پاس آئے ہیں تو میں ٹرالی نہ لگاتی ان سے باتیں کرتی رہتی۔ خیر قارئین اگر ہمت رہی تو ان کے بارے میں ایک بھرپور کتاب لکھنے کا ارادہ ہے جس میں ان کی درجنوں ملاقاتوں کا احوال اور درجنوں خطوط شامل ہونگے!
مجھے ”پاکستان یونائیٹڈ نیشنز ایسوسی ایشن کی طرف سے قومی کالم نگار کا خطاب اور ایوارڈ“ ملا (یہ نوائے وقت میں بہترین کالم نگاری پر دیا گیا) تو مجھے فخر ہے جعفری صاحب نے اخبار میں بیان دیا تھا ”مسرت لغاری کے کالمز پڑھنا کار ثواب سمجھتا ہوں اور اب آخری بلکہ اہم ترین ملاقات کا ذکر میرے ایک دن پاس آئے تو میں نے کہا جعفری صاحب آج سب طنز و مزاح اور مسکراہٹیں ختم آپ کو اپنے روحانی اقوال و افکار و تجربات پر مبنی کتاب ”تیسری آنکھ سے“ کے کچھ صفحات سناﺅں گی سنبھل کر بیٹھ گئے۔ میں نے پہلے اس کے دونوں روحانی دیباچے پڑھے، چپ رہے، پھر اقوال پڑھنے شروع کئے چپ رہے، میں پڑھتی رہی، پڑھتی گئی، وہ آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہے، کوئی ہنکارا نہیں بھرا، کوئی تعریف نہیں کی، آخر میں نے کتاب بند کرکے رکھ دی اور پوچھا کیسے لگے اقوال؟ یہ ہے میرے لکھنے کی اصل بنیاد۔ دیر بعد آنکھیں کھولیں تو آنسوﺅں سے تربتر تھیں پھرسختی سے بولے مجھ سے مت پوچھو مت کچھ کہو کیسے لگے؟ جو کہنا ہو گا تاثر لکھ کر بھیج دوں گا۔ یہ کہہ کر ایک دم اٹھے اور چلے گئے ایک ماہ تک ان کا کوئی پتہ نہ چلا میں سخت پریشان رہی ایک روز فون آیا تو میں تلخ ہو گئی پوچھا اتنا عرصہ کہاں رہے؟ فرمایا عمرہ کرنے چلا گیا تھا۔ میں نے کہا اگر عمرے پر جا رہے تھے تو کم از کم مجھے مل کر تو جاتے فرمایا۔
اگر تم سے مل لیتا تو پھر ؟ مجھے نہیں معلوم مجھ ناچیز و ناقص و حقیر کیلئے ان کی خوش فہمی کیا تھی؟ اے کاش اس کے بعد ملاقات ہوتی تو ان سے بہت کچھ پوچھتی مگر کیسے پوچھتی کہ جہاں وہ گئے ہیں وہاں سے کون واپس آتا ہے؟ مستقل جہلم رہنے کیلئے اسلام آباد سے جا رہے تھے تو ان کے ساتھ شام منائی جا رہی تھی جب اپنے عقیدتمندوں کیلئے اپنی الوداعی نظم پڑھی تو خود بھی آنسوﺅں میں ڈوب گئے پورا ہال چشم تر تھا فرمایا دوستو بظاہر میں جارہا ہوں مگر تمہارے دلوں میں رہونگا۔ دعائیں دیتا رہوں گا تمہارے خلوص کا قرض چکاتا رہونگا پھر جب یہ شعر پڑھا تو پوری محفل ہی کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔
چپکے چپکے اس نگر میں گھومنے آﺅنگا میں
گل تو گل ہیں پتھروں کو چومنے آﺅنگا میں
جعفری صاحب آپ نے یہ شعر تو بہت آسانی سے پڑھ دیا تھا لیکن یہ نہ بتایا کب اس نگر میں چپکے چپکے آئیں گے؟ کب اس شہر کے پتھروں کو چوم کر پھول کر دیں گے؟ آپ نے واپسی کی کوئی تاریخ تو دی ہی نہیں ہے؟ آخر کب؟ خدارا آئیے، ببانگ دہل آئیے، چپکے چپکے کیوں؟ بلاتامل آئیے، اپنی مخصوص گھن گرج کے ساتھ آئیے، مگر آیئے تو سہی“

ای پیپر دی نیشن