’’مدر ڈے‘‘ یا ماں کے دن کے حوالے سے مجھے آج یہ شرف حاصل ہو رہا ہے کہ ’’اپنی کتاب‘‘ میں اور میرے ’’اماں جی‘‘ کا ابتدائیہ اپنے معزز قارئین کی خدمت میں پیش کر سکوں ’’میں اور میرے اماں جی‘‘ لکھنے سے پہلے میں نے کئی بار سوچا کہ آخر اس میں کون سی نئی بات ہو گی جس کیلئے مجھے یہ کتاب لکھنا چاہئے۔ کتاب لکھنے کی تحریک کیوں پیدا ہوئی اور اسے مکمل کرنے کیلئے مجھے اتنا وقت کیوں لگا یہ سب اپنے قارئین سے شیئر کرنے سے پہلے یہ کتاب لکھنے یا نہ لکھنے کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات اور انکے جوابات، دلیلیں اور انکے استرداد کے بعد جب ہر اعتبار سے قائل ہو کر یہ منصوبہ شروع کر کے مکمل کرنے کا فیصلہ کیا تو میرے نوجوان پبلشر علامہ عبدالستار عاصم نے مجھے اسے اپنی ایسی خودنوشت لکھنے کا مشورہ دیا جس میں بے شک اماں جی کی شخصیت پر جتنا چاہوں لکھوں مگر اپنے بارے میں بھی اہم واقعات کتاب کا حصہ بنیں۔ میں نے اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے ’’یونیورسٹی کے ماہ وسال‘‘ کے عنوان سے بہت تھوڑا سا لکھ کر جواب خود پڑھا تو احساس ہوا کہ اس سے میں اپنے مرکزی خیال سے دور چلا جائوں گا اور شاید اماں جی کی اس نصیحت پر پوری طرح عمل نہ ہو سکے کہ اپنے کسی مخالف، بدخواہ، دشمن یا حاسد کے بارے میں کبھی برانہ سوچنا۔ اس کیلئے نہ نفرت کرنا، نہ اس سے کینہ رکھنا، نہ برائی کا جواب برائی سے دینے کی کوشش کرنا۔’’کر بھلا ہو بھلا اور انت بھلے کا بھلا‘‘ والا فارمولا اختیار کرنے سے تمہارا دین اور دنیا دونوں بچ جائینگے۔
یہ رشتہ تو آفاقی ہے شاید مکاں و زماں کی قید سے آزاد۔ ہر مذہب‘ ہر نسل اور ہر زمانے میں احترام اور محبت کی سر بلندیوں پر چمکنے دمکنے والا رشتہ جس کی بڑے بڑے مفکر‘ مدبّر اور علماء تشریح نہ کر سکے۔ شاید خود بھی نہ سمجھ سکے اور جو سمجھا وہ دوسروں کوسمجھا نہ سکے۔ ماں کے اولاد کے ساتھ جذبات و احساسات کو تو شاید کوئی ماں بھی نہ سمجھا سکے کیونکہ اس کیلئے اسے الفاظ کا سہارا ہی لینا پڑے گا دوسرا کوئی اسے کیا سمجھے گا اور کیا سمجھائے گا۔ لیکن اولاد کیلئے ماں کے مقام و احترام کا تعین خود اللہ تعالیٰ نے کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں اللہ والے کی بات سے رہنمائی لی جا سکتی ہے جس کے پاس ایک عورت آئی اور پوچھا بابا جی ہمیں شوہر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے شوہر کو بیوی کی اطاعت کا حکم کیوں نہ دیا گیا؟ یہ تو سراسر حقوقِ نسواں کے خلاف ہے۔ بابا جی مسکرائے اور پوچھا بیٹی یہ بتا تیرے کتنے بیٹے ہیں‘ کہنے لگی تین ہیں۔ فرمایا تجھے ایک مرد کی اطاعت کا حکم دیا اور تین مردوںکو تیری اطاعت کا پابند بنا دیا اور وہ بھی ایسا سخت پابند کہ ان کی جنت تیرے قدموں کے نیچے رکھ دی۔ تجھے اختیار دیا کہ شوہر کو پسند نہیں کرتی تو علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہے مگر تیرے بیٹوںکو ایسا کوئی اختیار نہیں دیا۔ انہیں ہر حال میں تیرا پابند بنایا۔ تیری کسی غلط بات یا غلط فیصلے پر ردِعمل سے روک دیا۔ اُف تک کہنے کی اجازت نہ دی۔ میری بیٹی روٹی کے بعد انسان کا سب سے بڑا حق عزت ہے اور وہ تجھے مرد سے زیادہ ملی ہے۔
میرے چھوٹے بیٹے مصطفیٰ خالد کی ماں پر لکھی وہ نظم تو مجھے مکمل یاد نہیں مگر اس کا مفہوم یہ تھا کہ میں زمین پر میرے اوپر ایک آسمان اسکے اوپر دوسرا آسمان اور پھر سات آسمان اور سات آسمانوں کے اوپر جنت اور وہ میری ماں کے قدموں کے نیچے۔
ویسے بھی ماں کا رشتہ آفاقی ہے‘ لافانی ہے۔ اس رشتہ میں کہیں سے ملاوٹ نہیں آنی چاہئے اور پھر اماں جی کے ساتھ محبت ‘ احترام اور عقیدت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مجھے تو میرے رب نے اس کی جہتیں سمجھا دیں اماں جی کو اولاد کی تربیت میں دین کی پاسداری کرنے کا ہنر اور اولاد کے حقوق اور فرائض کی باتیں انہوں نے اپنے عظیم خاوند سے سیکھ لیں اور انہیں نافذ کر دیا۔ اماں جی تو سراپا محبت و ایثار تھیں۔ اپنی اولاد کے لئے ہر اس شخص کے لیے جس نے انہیں اماں جی کہہ کر دعائیں لیں۔ انتہائی اجلی اور شفاف نیت اور انتہائی آسان اور پھر وقتِ عمل نے انہیں راضی بہ رضا رہنے اور قناعت کی دولت کی فراخدلی سے خرچ کرنے کی اماں جی کی عادت ان کی ساری اولاد میں قیمتی ورثہ کے طور پر منتقل ہو گئی۔ ’’کربھلا ہو بھلا‘‘ جس کی زندگی کا موٹو ہو اس کے دل میں نفرت‘ کینہ‘ غرور‘ شکوہ یا شکایت کیسے داخل ہو گی اور اس کا میں نے ساری زندگی اپنے اماں جی میں مشاہد کیا۔’’میں اور میرے اماں جی‘‘ لکھنے کی سب سے اہم وجہ آج کی نوجوان نسل کو اولاد کی تربیت کرنے اور اولاد کے لے ماں کے مقام و مرتبہ کی اہمیت اجاگرکر کے پریشانیوں اور مصائب و آلام میں گری ہوئی اللہ کی مخلوق کو اس سے نکالنا ہے۔ سادہ اور اسان گُر کے طور پر اماں جی نے ہمیں بدخواہوںِ‘ مخالفین اور دشمنوں کومعاف کرنے کا ایسا ہنر سکھایا کہ وہ ہماری شخصیت بن گیا۔
مجھے اپنے پورے خاندان کے ہر فرد سے اس کتاب میں مفید مشورے ملے۔ تاثرات میں میں نے ہرشخص کی اپنی زبان اور سوچ کو برقرار رکھا اور کتاب کے آخرمیں تاثرات اسی ترتیب کے ساتھ دیئے کہ پہلے اپنی بڑی بہن اور اس کے بیٹے‘ اس کے بعد اپنے بھائی‘ اس کے بیوی بچوں اور آخر میں اپنی اہلیہ‘ بیٹی‘ داماد‘ بیٹوں اور بہوئوں کے تاثرات ہیں۔ میں اپنی اہلیہ فرزانہ خالدہ کا بہت زیادہ ممنون ہوں کہ اس نے بھی مشوروں کے ساتھ مجھے فرصت اور ماحول فراہم کر کے اپنے وقت کو رضاکارانہ طور پر میرے سپر د کردیا۔ اس کی اس قربانی کے بغیر یہ انتہائی حساس اور ذاتی نوعیت کی تحریر ممکن نہ تھی۔
ماں … خدمت میں عظمت اور کامیابی
May 15, 2019