امیرالمومنین حضرت علیؓکی بے مثل حیات مبارکہ

امیرالمومنین حضرت علی ؓ سردار انبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺکے چچا زاد بھائی و داماد ، سردار عرب حضرت ابو طالب ؑکے و حضرت فاطمہ ؓ بنت اسد ؓ کے صاحبزادے ، جنت کی تمام عورتوں کی سردار حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کے شوہر نامدار اور جوانان جنت کے سرداروں حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسینؓ ،حضرت عباس علمدارؑ ، جناب زینبؓ وجناب ام کلثومؓ کے والد گرامی تھے۔ آپ کی ولادت با سعادت تیرہ رجب المرجب بروز جمۃ المبارک ۰۳ عام الفیل۰۰۶ء میں خانہ کعبہ میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے گھر میں حضرت ابو طالب کے عظیم بیٹے کی ولات با سعادت ہوگئی۔ حضرت فاطمہ بنت اسدؓ نے تین دن تک خانہ کعبہ میں قیام فرمایا لیکن بچہ نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ تیسرے دن سرور کائنات ﷺ تشریف لائے۔ بچے کو اپنی آغوش مبارک میں لیا۔ حضرت علیؓ نے آنکھیں کھول کر سب سے پہلے چہرہ رسالتؐ کی زیارت فرمائی۔ سرور کائنات حضرت محمد ﷺ نے اپنی زبان مبارک حضرت علی ؓ کے دہن مبارک میں دی۔ حضرت علیؓ لعاب دہن سردار انبیاء ؑ سے خوب سیراب ہوئے۔ اس سے دہن امامت میں بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ حضور اکرم ﷺ نے آپ کا اسم مبارک اللہ تعالیٰ کے اسم حسنیٰ کے نام پر علی رکھا۔ آپؓ کی پیشانی ایک لمحہ کے لیے بھی بتوں کے سامنے نہیں جھکی۔ اسی سبب سے عالم اسلام آپ کو کرم اللہ وجہ کے لقب سے پکارتا ہے۔ آپ کی پرورش حضورؐ نے فرمائی۔ حضور اکرم ﷺ کی تربیت نے آپ کو ہر قسم کی نعمات الٰہی سے بہرہ مند فرمادیا۔ سردارؐ دوجہان کا فرمان عالی شان ہے کہ علیؓ کا خون میرا خون ہے۔ علیؓ کا جسم میرا جسم ہے۔ آپ نے دعوت ذوالعشیرہ میں سردار انبیائؐ کا بھرپور ساتھ دیا۔ حضورؐ نے دعوت اہل عشیرہ کے موقع پر آپ کو اپنا وزیر مقرر فرمایا۔ آپ ؓسے متعلق بہت سی احادیث رسول اکرم ﷺ موجود ہیں۔ آپ کے فضائل کا انسانی عقل احاطہ نہیں کرسکتی۔ رحمۃ اللعالمین ؐ کا آپ کے بارے میں ارشاد گرامی ہے۔ ’’ اگر تمام دنیا کے دریا سیاہی بن جائیں اور درخت قلم ہوجائیں اور جن و انس لکھنے اور حساب کرنے والے ہوں تب بھی علیؓ ابن ابی طالب کے فضائل کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ حضورؐ نے آپ کو امام الاولیاء ، منار الایمان اور رایۃ الھدیٰ فرمایا ہے۔ آپؓ ہی کی فاطمی اولاد رسول اللہ ﷺ کی اولاد کہلاتی ہے۔ حضرت ابو بکر روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی بھی شخص پل صراط سے گزر کر جنت میں نہیں جا سکے گا جب تک حضرت علیؓکا دیا ہوا پروانہ جنت اس کے پاس نہیں ہوگا۔
آپ کی حیات مبارکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ عظیم معجزہ تھی۔ آپ کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا من کنتم مولاؤ فھذا علی مولا۔ جس کا میں مولا ہوں اس کے بعد علیؓمولا ہیں۔ ۔ آپؐ عظیم ترین جنرل تھے۔ حضور اکرمؐ کے دور کی تمام فتوحات آپ کے دست مبارک پر ہوئیں۔ تمام غزوات میں کفار کے بڑے بڑے شہ زور پہلوان کے آپ کے ہاتھوں مارے گئے۔ شجاعت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ اسی طرح آپ کا علم بے مثل ہے۔ آقائے دوجہاں ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ میں شہر علم ہوں اور علیؓاس کا دروازہ ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں علم و حکمت کے دس درجوں میں سے نو حضرت علیؓ کو ملے ہیں۔ اور دسویں میں تمام دنیا کے علماء شامل ہیں۔ اور اس دسویں درجہ میں بھی حضرت علیؓ پہلے نمبر ہیں۔ آپؓ کو قرآن و حدیث کا سب سے زیادہ علم تھا۔ ۔ آپ کے سوا کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مجھ سے جو چاہے پوچھ لو قبل اس کے کہ میرے تمہارے درمیان سے رخصت ہوجائوں۔ آپ نے فرمایا ’’ خدا کی قسم مجھے علم ہے کہ قرآٰن مجید کی کون سی آیت کہاں نازل ہوئی۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ خشکی میں کونسی نازل ہوئی ہے اور تری میں کونسی نازل ہوئی ہے۔ کون سی دن میں کون سی رات میں نازل ہوئی۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت علیؓ سے عرض کی کہ بسم اللہ کی تفسیر بیان فرمائیے۔ آپؓ نے ساری شب بیان فرمایا اور جب صبح نمودار ہوگئی تو فرمایا اے ابن عباسؓ کہ میں اس کی تفسیر اتنی بیان کرسکتا ہوں کہ ستر اونٹوں کا بار ہوجائے۔ بس اتنا جان لو کہ جو کچھ قرآن مجید میں ہے۔ وہ سورہ حمد میں ہے اور جو سورہ حمد میں ہے وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں ہے اور جو بسم اللہ میں ہے وہ ہائے بسم اللہ میں ہے
فقہ جعفریہ کے گیارہ امامؓ آپؓ کی اولاد سے ہیں اور اہل سنت کے چاروں امام آپؓ کی اولادوں کے شاگرد تھے۔ آپ منبر پر تشریف فرما ہوتے تو آپ سا بے مثل خطیب کوئی نہیں۔ آپ کی تصانیف قرآن و حدیث کے بعد دنیا میں اپنی نظیر نہیں رکھتیں۔ آپ کا عدل بھی عدیم المثال ہے۔ آپ کے خطبات اور آپ کی تحریروں کا مجموعہ نہج البلاغہ اپنی مثال آپ ہے۔عدل و انصاف کے حوالے سے بھی عدل حیدری لا جواب ہے۔ آپ نے اپنے بڑے بھائی کی ناراضی کو تو گوارا فرمالیا لیکن بیت المال سے کوئی امداد دینی گوارا نہیں فرمائی۔ آپ خلیفۃ المسملین تھے۔ دو مشہور افراد تشریف لائے۔ آپ نے بیت المال کے چراغ کو گل فرمادیا کہ ذاتی ملاقات کے لیے بیت المال کے چراغ کواستعمال نہیں کیا جاسکتا۔ امیرالمومنین حضرت علی ؓکے سامنے مشکل سے مشکل معاملات آئے۔ بڑے بڑے دانشمند لوگ ان کے حل کرنے سے قاصرنظر آتے۔لیکن جناب امیرؓ نے ایک نظر میں انہیں حل فرما کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ایک بڑی مشہور شخصیت نے متعدد مرتبہ کہا۔
اگر علیؓ نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوگیا ہوتا۔
آپؓ کے بنائے ہوئے انصاف کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر دنیا کے تمام چیف جسٹس صاحبان اور جج صاحبان انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ عبادت و تقویٰ میں بھی پوری دنیا میں آپ جیسا کوئی نہیں تھا۔ ہزار تکبیر سے ساری رات نماز پڑھنے کی آواز روز آپ کے گھر سے آتی تھی۔
۹۱ رمضان المبارک ۰۴ ہجری میں بہ وقت نماز فجر مسجد کوفہ میں عبدالرحمن ابن ملجم ملعون ازلی نے آپ کے سر پر تلوار سے ضرب لگائی۔ آپؓ کے منہ سے الفاظ نکلے فزت بہ رب کعبہ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ 21رمضان المبارک کو دین اسلام کے اہم ترین ستون کو شہید کردیا گیا۔ آپؓ کی قبر مبارک نجف اشرف میں انبیاء کرام حضرت آدم ؑ اور حضرت نوحؑ کے ہمراہ ہے۔ اور آپؓ کے روضہ اطہر کے سامنے وادی السلام میں انبیائے کرامؑ حضرت ہود ؑ اور حضرت صالحؑ کی قبر ہائے مبارک ہیں آپؓ کا روضہ مبارک مرجع خلائق ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو آپؓ کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین ثم آمین)

ای پیپر دی نیشن