حکومتی گورننس‘ غیریقینی کی فضا سسٹم کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہے

عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کی حکومت کی فراغت اور اپوزیشن جماعتوں کی مخلوط حکومت تشکیل پائے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے مگر ملک‘ قوم اور عوام کو درپیش گھمبیر مسائل سے عہدہ برأ ہونے کی کوئی ٹھوس پالیسی متعین ہوتی ابھی تک نظر نہیں آرہی۔ ان مسائل کی بنیاد پر ہی پی ٹی آئی کی حکومت کو وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے گھر بھجوانے کی راہ ہموار ہوئی تھی اور حکومت کی تبدیلی کے بعد عوام بجا طور پر توقع کر رہے تھے کہ قومی حکومت کے پاس انکے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل ٹھوس بنیادوں پر حل کرنے کا کوئی مربوط ایجنڈا موجود ہے جسے بروئے کار لا کر نئی حکومت انہیں روٹی روزگار کے مسائل کے دلدل سے نکال کر آبرومندی والی زندگی بسر کرنے کے قابل بنا دیگی مگر اس معاملہ میں حکومتی کارکردگی دیکھ کر نہ صرف عوام مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ حکمران جماعتوں کی قیادتیں بھی درپیش چلینجز کے سامنے بے بسی کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے تو گزشتہ روز اپنے پبلک جلسے میں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ہم سابق حکومت کے پیدا کردہ مسائل کا ٹوکرہ اٹھا کر کیوں عوام کے پاس جائیں۔ 
سابق حکومت کی آئی ایم ایف کی شرائط پر قرض لینے کی پالیسیوں کے باعث ہی ملک کی خودمختاری کا سوال اٹھا‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات اور ادویات سمیت تمام ضروری اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا اور وفاقی اور صوبائی میزانیوں میں مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر اور نئے ٹیکس لگا کر ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کی تصویر بنے عوام پر اقتصادی مسائل کا بوجھ لادا اور انہیں خطِ غربت سے نیچے دھکیلا جاتا رہا جبکہ پی ٹی آئی حکومت ان بڑھتے اقتصادی مسائل کا سابق حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہراتی رہی اور ان پر چور‘ ڈاکو کا لیبل لگا کر ان کیخلاف احتساب کا شکنجہ کسواتی رہی۔ یہی پالیسی اور بلیم گیم والی سیاست پی ٹی آئی کی قیادت اور حکومت کے گلے پڑی اور اپنے روزمرہ کے مسائل سے عاجز آئے عوام کے اضطراب نے ایک دوسرے سے نظریاتی اور سیاسی بعُد رکھنے والی اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر حکومت کو گھر بھجوانے کی حکمت عملی طے کرنے کا موقع فراہم کیا اور بالآخر پی ڈی ایم میں شامل اور اس سے باہر موجود اپوزیشن جماعتوں کو باہم متحد ہو کر وزیراعظم عمران خان کیخلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لانے اور کامیاب کرانے کا موقع ملا۔ 
ان جماعتوں کی قیادتوں نے یقیناً ہم ورک کر رکھا ہوگا کہ وزیراعظم کیخلاف انکی عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے نتیجہ میں انہیں اقتدار میں آنے کا موقع ملے گا تو انہیں فوری حل کے متقاضی کن مسائل کا سامنا کرنا پڑیگا اور عوام کو مطمئن کرنے کیلئے انہیں اپنی حکومت اور انتظامی مشینری کو کن خطوط پر متحرک کرنا پڑیگا اور بالخصوص غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل میںفوری ریلیف دینے کے کون سے اقدامات اٹھانا ہونگے۔ 
یہ بھی امر واقعہ ہے کہ عمران خان نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد نئی حکومت کو زچ کرنے کیلئے اپنے پبلک جلسوں میں جو طرز تخاطب اختیار کر رکھا ہے اور اقتدار سے اپنی محرومی کا موجودہ حکومتی اکابرین ہی نہیں‘ ریاستی آئینی اداروں پر بھی ملبہ ڈال کر وہ جس طرح لوگوں کو سول نافرمانی کا راستہ دکھا رہے ہیں‘ اسکے تناظر میں حکومت کیلئے ملکی اور قومی مسائل کے حل کیلئے فوری طور پر کوئی مربوط اور ٹھوس پالیسی طے کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس صورتحال سے عہدہ برأ ہونا بھی یقیناً حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ ملکی حالات کو لاقانونیت اور جنگل کے معاشرے کی جانب جانے سے روکا جاسکے مگر حکومت ان گھمبیر عوامی مسائل سے بے نیاز اور دستکش نہیں ہو سکتی جو سابق دور حکومت میں بھی عوام کا اضطراب بڑھانے کا باعث بنے اور آج بھی ان میں غم و غصہ اور حکومتی گورننس کے معاملہ میں مایوسی پیدا کررہے ہیں۔ 
اسی تناظر میں مختلف سیاسی اور دانشوروں کے حلقوں میں یہ امر موضوع بحث بنا رہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ کے بعد نئی حکومت اسکے چھوڑے ہوئے عوامی مسائل کی موجودگی میں اسمبلی کی باقیماندہ مدت بحسن و خوبی پوری کراپائے گی یا نہیں اور ملک کی معیشت کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے نجات دلا پائے گی یا نہیں۔ اور کیا فوری انتخابات کا انعقاد ہی نئی حکومت کی مجبوری بنے گی جس کیلئے بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں اتفاق رائے بھی موجود تھا۔ 
اس وقت عمران خان نے اپنی اقتدار سے محرومی کا جو بیانیہ اختیار کر رکھا ہے جس کی بنیاد پر انہیں عوام میں پذیرائی مل رہی ہے‘ فوری انتخابات کی صورت میں انہیں اقتدار میں واپس آنے سے روکنا حکمران جماعتوں کیلئے بہت بڑا چیلنج بن سکتا ہے اس لئے بالخصوص پیپلزپارٹی کی قیادت فوری انتخابات کی جانب جانے کا رسک لینے کو آمادہ نظر نہیں آرہی جس کیلئے آصف علی زرداری اپنی حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو قائل کرنے کی کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں اور انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات کا ڈول ڈالا جارہا ہے تاہم اس وقت عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کے علاوہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی جس شدت کے ساتھ سر اٹھا رہا ہے اسکے پیش نظر موجودہ حکومت کیلئے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے جواز پر عوام کو مطمئن کرنا مشکل ہو جائیگا جبکہ آئی ایم ایف کا چھانٹا بھی ملک اور عوام کے سروں پر اسی طرح تنا ہوا نظر آرہا ہے جس کیلئے گزشتہ روز بھی آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی مذاکراتی ٹیم کو باور کرایا گیا ہے کہ پٹرول مہنگا کئے بغیر بات نہیں بنے گی۔ اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ سابق حکمرانوں کی طرح ہی بندھی رہتی ہے تو اس صورت میں حکومت کو اگلے پندھرواڑے کیلئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی اضافہ کرنا پڑیگا اور قومی بجٹ میں بھی وہ عوام کیلئے ریلیف کے اقدامات اٹھانے سے قاصر رہے گی۔
موجودہ حکومت کے ایک ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں بھی کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے جس کیلئے وفاقی ادارہ شماریات کی اس ہفتے کی رپورٹ چشم کشا ہے جس کے مطابق مہنگائی کی شرح 15.85 فیصد تک جا پہنچی ہے اور 28‘ اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ یہی وہ گھمبیر مسائل ہیں جن پر مسلم لیگ (ن) کی حکومتی اور پارٹی قیادتیں لندن میں بیٹھ کر مسلسل غوروفکر کررہی ہیں اور امور حکومت کی انجام دہی کے معاملہ میں کوئی ٹھوس پالیسی طے کرنے کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے۔ ممکن ہے اس میں فوری انتخابات کی طرف جانے کی حکمت عملی بھی شامل ہو۔ اس سلسلہ میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت جو بھی فیصلہ کریگی اسے اپنی اتحادی جماعتوں کی قیادتوں کو بہرصورت اعتماد میں لینا پڑیگا۔ اسے اپنی مستقبل کی سیاست کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرنا ہے‘ وہ اب بلاتاخیر کرلیا جانا چاہیے کیونکہ حکومتی گورننس کے حوالے سے بتدریج ہموار ہوتی غیریقینی کی فضا برقرار رہنے کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ بہتر یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ملک واپس آکر اپنی حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادتوں کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھے اور درپیش گھمبیر مسائل کا کوئی حل ڈھونڈے۔ بصورت دیگر عوامی اعتماد سے محرومی ان کا مقدر بن جائیگی۔ 

ای پیپر دی نیشن