جتنے بھی ہیںخواب ہیں ، افسانے ہیں

آصف علی زرداری  کی  پریس کانفرنس کے اختتام پر ان سے  سوال پوچھ لیا ۔یہ سوال فیض کے حوالے سے تھا ، جسے  انہوں نے عجیب بات کہ کر معاملہ نمٹادیا چونکہ آصف علی زرداری ان سیاستدانوں میں شامل نہیں ہیں کہ   جن کے لب دلرباوں کی طرف سے شیریں خیال کیئے جاتے ہوں ۔اس لیے اگلے ہی روز شکوے سنائی دینے لگے کہ ایسا نہیں کہنا چاہئیے تھا ، بھئی کوئی اگر مجھ سے پوچھے ( ویسے کیوں پوچھے)تو میں بتاوں کہ پاکستان کے میدان سیاست کے موجودہ اور موثر کرداروں میں سے اگر کسی کو ’’فیض ‘‘کے بارے میں کھل کر بات کرنے کا حق حاصل ہے تو وہ صرف اور صرف آصف علی زرداری ہیں۔باقی جو بھی ہیں ، جتنے بھی ہیں،خواب ہیں ، افسانے ہیں ، سبھی عاشق ہونے کے دعوے دار ، اور سبھی راہ عشق سے انجانے ہیں   ۔آصف علی زرداری کو خود بھی عین عالم شباب میں کھڈے لائن لگا دیا گیا تھا ۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ آصف علی زرداری کو فیض کے بارے میں بات کرنے کا حق حاصل ہے ۔بھئی دیکھیئے کہ یہی آصف علی زرداری  جب صدر پاکستان تھے تو انہوں نے  بیس سو گیارہ میں ملک کی ایک بڑی وفاقی  یونیورسٹی میں پاکستان کی پہلی فیض  چیئر بھی قائم کی تھی ۔یہ عظیم فیض کی خدمات کے اعتراف اور ترویج کے لیے ایک قابل تقلید مثال تھی جو صدر زرداری صاحب نے قائم کی۔آصف علی زرداری نے یہ پریس کانفرنس اس وقت کی جب پاکستانی حکمران قیادت کا آدھا حصہ لندن میں جمع ہو کر ایک دوسرے سے آہستہ آہستہ آواز میں باتیں کرنے میں مصروف ہے۔ مجھے بہت رنج ہوتا ہے جب میں اکیسویں صدی میں بھی اسی لندن کو پاکستانی سیاست کی صورت گری اور تقدیر سازی میں موثر دیکھتا ہوں ، جس نے قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے کے بعد "راولپنڈی سازش" کا شوشہ تخلیق کیا تھا۔یہ 8 اور 9 مارچ 1951 کی درمیانی ، شب کا قصہ ہے ۔جب پولیس کی بھاری نفری نے  فیض احمد فیض کے گھر کو آخر شب  گھیرے میں لے لیا ، اور کوئی بھی وجہ بتائے بغیر اور بنا کسی قسم کے وارنٹ کے فیض کو گرفتار کر کے لے گئے ۔اگلی صبح ریڈیو پاکستان پر وزیراعظم لیاقت علی خان کے حوالے سے ایک خبر نشر کی گئی کہ ملک کے خفیہ اداروں نے حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک نہایت خطرناک سازش کا سراغ لگایا ہے۔ ستم ظریف نے پوچھا ہے کہ کیا شرپسندوں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں ،عسکری شرپسند اور سول شرپسند ۔؟ اسے کیا بتاؤں کہ بعض اوقات شر میں اتنی کشش پیدا ہو جاتی ہے کہ اسے پسند کرنے والوں  میں من و تو کی تمیز باقی نہیں رہتی۔بہرحال عقدہ یہ کھلا کہ فیض احمد فیض کو اسی سازش کیس میں ، جسے بعد میں پنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا تھا ، گرفتار کر کے حوالہ زنداں کر دیاگیا ہے ۔ یہ کیس پاکستان کا پہلے ایک  مقبول ترین اور پھر بعد میں  محبوب ترین سازش کیس بن گیا ،کیس چلتا رہا، دیگر قیدیوں کے ساتھ  فیض بھی  کھڈے لائن لگے رہے ،ان دنوں تو اس کیس کی مقبولیت کا یہ عالم دیکھتے ہوئے  خدشہ پیدا ہو چلا تھا کہ اس بھلے شہر کا نام  ہی بدل کر کہیں  "راولپنڈی شہرسازش" نہ رکھ دیا جائے۔
انصاف سے بات کریں۔فیض جیسے بے ضرر شاعر اور روشن خیال دانشور کو ، جو رائل برٹش آرمی سے کرنل کے طور ریٹائر بھی ہو چکے تھے ، ان  کو پنڈی سازش کیس میں ملوث کر کے کھڈے لائن لگانا کتنا درست تھا۔؟فیض نے اس زبردستی کے کھڈے لائن کو دست صبا کی طرح محسوس کیا ، انہوں نے قید و بند کو زندان نامہ کے زیر عنوان ایک مہکتا گلستان بنا کر پیش کر دیا ہے۔ فیض کو کئی سال جیل میں رکھا گیا ، کبھی یہاں ،کبھی وہاں کھڈے لائن لگائے رکھا۔کچھ بھی کہیں ، فیض کے ساتھ کی زیادتی گئی  تھی۔خیر یہ سازش کیس تو کبھی بھی سازش ثابت نہ ہو سکا۔یہ مبینہ طور پر برطانوی ایم آئی سکس کا پراجیکٹ تھا جس کے ذریعے فورسز کے کنڈکٹ اور مورال کو ایڈجسٹ اور سیٹ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔فیض کی گرفتاری کے اگلے ہی روز لندن ٹائمز کی خبر میں فیض احمد فیض کو پاکستان کا سب سے خطرناک لیفٹسٹ قرار دیا گیا تھا۔اسی ایک خبری زاویے سے برطانویوں کے طریقہ واردات اور اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے پاکستانیوں کی ذہن سازی کرنے کے طریقے کو سمجھا جا سکتا ہے۔اس سازش کیس میں فیض کو جنوری 1953   کو  چار سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔فیصلے میں اپیل کا حق دیا گیا تھا ،سو گورنر جنرل کو اپیل کی گئی کہ  اس سازش میں  اس لیے ملوث کیا گیا ہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے فیض احمد فیض سے پرخاش رکھتے ہیں۔اس پرخاش کی وجہ بیان کی گئی کہ ان کا اخبار حکومت کی پالیسیوں اور بعض اقدامات پر تنقید کرتا رہا ہے اور یہ کہ محض انتقامی کارروائی کے طور پر ان کو اس مقدمہ سازش میں ملوث کیا گیا ہے ۔ایک سال کامل غور و فکر کرنے کے بعد ،اپیل نامنظور کر دی گئی۔یاد رہے کہ ایک سال کا مطلب تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں۔بہرحال  مختلف جیلوں کے کھڈے دیکھنے اور سہنے کے بعد 1955ء میں کیس سے مکمل نجات کی گھڑی آئی۔فیض احمد فیض ایک زمانے میں برٹش انڈین آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ  خدمات انجام دیا کرتے تھے ۔وہ کیپٹن سے کرنل تک کے رینک تک پہنچے۔اس زمانے کا شعبہ تعلقات عامہ آج کل کے آئی ایس پی آر نامی محکمے کی طرح کا نہیں ہوتا تھا کہ چند دنوں کے وقفے سے سیدھا قوم سے بات چیت شروع کردے  ۔یہاں بنیادی کام مقامیوں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے برٹش آرمی کو موزوں حکمت عملیاں بنا کر دینے کا تھا۔اس کام میں فیض کے علاوہ۔ ن م راشد ، حمید احمد خان،حفیظ جالندھری،ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور چراغ حسن حسرت بھی شامل رہے۔خود فیض قریب پانچ سال تک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ساتھ منسلک رہے اور خود ان کے مطابق اس دوران انہوں نے فوج کے ادارے کو خوب اچھی طرح سے سمجھنے کی کوشش کی ،انہوں نے برطانیوں کے سامراجی کردار کا مطالعہ بھی کیا، وہ کہتے ہیں کہ اس دوران شاعری کچھ نظر اندازضرور ہوئی ،مگر صحافت اور تشہیر کی نفسیات کی اچھی طرح سے سمجھ آگئی۔ایک اور بات جو فیض کو سمجھ آئی وہ یہ تھی کہ فوجی قیادت ہندوستان کے سیاسی مسائل اور ان کے ملکی دفاع پر اثرات کے حوالے سے بالکل نابلد تھے ۔
اسی فیض کو پاکستان کے بننے کے کچھ ہی عرصے کے بعد بعض مقبول قوم پرست فوجیوں کے ساتھ ملک کے مستقبل کے حوالے سے گفتگووں میں حصہ لینے پر حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر حوالہ زندان کر دیا گیا۔لیکن انہوں نے کبھی بھی شکوہ نہیں کیا۔انہوں نے یہ سکھایا ہے کہ؛  فیض کبھی گلہ نہیں کرتا ، شکوہ سنج نہیں ہوتا،  جیل کے بعد جلاوطنی کے ادوار بھی ایک طرح کی کھڈے لائن ہی ہوا کرتی ہے۔لیکن کبھی کسی محکمہ تعلقات عامہ نے  فیض کو بے وجہ اسیر کرنے اور ایک مدت تک سدھائے ہوئے قلم کاروں کے ذریعے مطعون کرنے پر قوم سے  معذرت نہیں کی۔میں ایلس کے نام فیض کے زندان سے لکھے مکاتیب کی کتاب صلیبیں میرے دریچے میں کھول کر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ آج کل تو ذرا سے اشارے کنائے سے پیشانیوں پر بل پڑ جاتے ہیں، ڈرانا ، دھمکانا بہ طرز سمجھانا شروع کر دیا جاتاہے ۔پر یہ والا فیض کیسا اور کون تھا جو کبھی گلہ نہیں کرتا تھا ؛ 
بہت ملا نہ ملا  ، زندگی سے غم کیا ہے
متاع درد بہم ہے تو بیش وکم کیا ہے
کہنے والے فیض کو کبھی غصہ نہیں آتا تھا ،آج کل کے فیض تو بڑے زود رنج معلوم ہوتے ہیں۔ کتاب سے  آواز آئی کہ اے نادان۔فیض کسی  شخص کا نہیں ،ایک کردار کا نام ہے

ای پیپر دی نیشن