’’سابقہ ڈومیسٹک سسٹم فراڈ ‘‘سابق چیئرمین پی سی بی احسان مانی کا یو ٹرن

May 15, 2022

منیر احمد بھٹی

سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ختم ہونے اور میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بنتے ہی کھیلوں میں سابقہ نظام یعنی ڈومیسٹک سسٹم کی بحالی کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے۔ با لخصوص کرکٹ کا ڈیپارٹمنٹل نظام جسے پی ٹی آئی  کے بر سر اقتدار آتے ہی ختم کر دیا گیا اوراس فیصلے سے ہزاروں کھلاڑ ی بیروز گار ہو گئے اسی بنا پر یہ مطالبہ کی جا رہا ہے کہ کھیلوں کے فروغ کیساتھ کیساتھ روز گار کے مواقع پیدا ہوں ۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر جب پی سی بی نے فرسٹ کلاس کرکٹ کے ڈھانچے میں تبدیلی کی تو اس وقت چیئرمین احسان مانی تھے اگرچہ وہ خود بھی ڈھانچے کی تبدیلی کے حق میں نہیں تھے۔  چیئرمین احسان مانی نے سا بق وزیر اعظم عمران خان سے  ملاقات کی اور  فرسٹ کلاس کرکٹ کے ڈھانچے میں تبدیلی کے فیصلے پر نظر ثانی کی استد عا کی تھی کہ پرانے سسٹم  کو ہی فعال رکھا جائے جس پر عمران خان نے کہا تھا،’’ ایسا ہرگز نہیں ہو گا ۔ میں نے 20سال سے زائد عرصہ کرکٹ کھیلی ہے اور کرکٹ کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا‘‘۔ انہوں نے کرکٹ آسٹریلیا کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے فیصلے کو برقرار رکھا اور احسان مانی کی تجاویز دھری کی دھری رہ گئیں۔کرکٹ کے بعد ہاکی، فٹ بال و دیگر کھیلوں کے ڈھانچے میں تبدیلی کر کے ڈیپارٹمنٹل اسپورٹس ختم کر دی گئی ۔
 دوسری جانب سابق چیئرمین پی سی بی احسان مانی  نے اب یو ٹرن لے لیا اور ان کے مطابق سابقہ ڈومیسٹک سسٹم فراڈ تھا اور  پاکستان کرکٹ کا نظام بدلنے والے  سابق وزیر  عمران خان کے فیصلے  کو درست قرار دے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے،’’ جب میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا سربراہ بنا تو اس وقت سوائے ایک کے دیگر تمام بینکس نے فرسٹ کلاس کرکٹ سے خود کو الگ کر لیا تھا،مذکورہ ادارے نے بھی ہمیں کہہ دیا تھا کہ یہ ان کا آخری سیزن ہے، یہ ڈپارٹمنٹس معاشی صورتحال کی وجہ سے اسے بوجھ سمجھ رہے تھے‘‘۔سابق چئیرمین پی سی بی احسان مانی نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا اور آناً فاناً بورڈ نے ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کر دی، میں نے بورڈ میں آنے کے بعد تمام معاملات کا خود بغور جائزہ لیا اور جو بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ سارا سسٹم ہی فراڈ تھا،زیادہ تر ڈپارٹمنٹس فرسٹ ڈویژن میں تھے لیکن یہ اپنے کرکٹرز کو سیکنڈ ڈویژن کھیلنے کے لیے ریلیز کر دیتے تھے،فرسٹ کلاس کرکٹ کا مقصد پاکستان کے لیے کرکٹرز بنانا ہوتا ہے لیکن ایسے کھلاڑی جو کئی برسوں سے کھیل رہے ہوتے تھے اور جن کا پاکستان کی نمائندگی کا کوئی امکان نہیں تھا، وہ پہلے اپنے ڈپارٹمنٹ اور پھر سیکنڈ ڈویژن بھی کھیلتے تھے۔ انہوں اس کی ایک مثال فیصل آباد کی دی  جس نے گریڈ ٹو سے ون میں کوالیفائی کیا لیکن اس کے کئی کھلاڑی اس لیے دستیاب نہیں تھے کیونکہ وہ پہلے ہی کسی اور ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے تھے۔6ایسوسی ایشنز کی بنیاد پر فرسٹ کلاس کرکٹ کھلانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ بہترین کھلاڑی کھیلیں جو پاکستانی ٹیم میں آ سکتے ہوں، ہمیں ان میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جو گذشتہ 8،10 سال سے کھیل رہے تھے اور ان کے حوالے سے کوئی امید نہیں تھی کہ پاکستان کی نمائندگی کر سکیں گے،انھیں صرف نوکری ملی ہوئی تھی۔ سابق چیئرمین احسان مانی اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے ہیں اورفرسٹ کلاس کرکٹ کے ڈھانچے میں تبدیلی کو درست قرار دے رہے ہیں ۔ایک بار پھر ڈیپارٹمنٹل کرکٹ بند کرنے پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ میرا خیال تھا کہ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کیا جائے۔ صرف متضاد رائے یہ تھی کہ عمران خان6 ٹیمیں چاہتے تھے جبکہ میرا مشورہ تھا کہ اس کی بجائے 8 ٹیموں سے شروعات کی جائے۔حالانکہ اس وقت صورتحال آج سے مختلف تھی وہ شائد بھول گئے ہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے احسان مانی کی ایک نہ مانی۔ 
 سابق چیئرمین پی سی بی احسان مانی کا  یہ بھی کہنا ہے ،’’میرے دور میں کرکٹ کلبز کی بھی اسکروٹنی کی گئی جس سے پتہ چلا کہ 25فیصد کلب فراڈ تھے، ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، اس فراڈ کو ختم کرنے کیلئے لائیو اسکورنگ کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ دنیا میں کسی بھی کرکٹ بورڈ کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ کرکٹرز کو ملازمتیں دے، آج کے کھلاڑیوں کو ڈپارٹمنٹس سے زیادہ تنخواہ مل رہی ہے، نہ صرف موجودہ کرکٹرز کو ایک سسٹم کے تحت کھلا کر معاوضے دیے جا رہے ہیں بلکہ سابق کرکٹرز سے بھی کہا گیا کہ وہ میچ ریفری، امپائرنگ اور کوچنگ میں آئیں، ان میں سے کئی اب ایسوسی ایشن کی ٹیموں کے کوچز ہیں۔
 احسن انداز میں فرائض نبھانے والے چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ ڈٹ گئے۔امپائر کی جانب سے بھی انھیں آؤٹ قرار دینے سے گریز کیا جا رہا ہے، گوکہ بعض حلقوں کی خواہش ہے کہ رمیز راجہ ازخود عہدہ چھوڑ دیں مگر انھوں نے ایک اعلیٰ شخصیت کے کہنے پر ایسا قدم نہیں اٹھایا، ادھر مسائل میں گھری نئی حکومت کی ترجیحات میں کرکٹ دور دور تک شامل نہیں، سربراہ کی تبدیلی سے نیا پینڈورا باکس کھولنے سے اجتناب برتا جا رہا ہے۔دوسری جانب ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی کے حوالے سے بھی تاحال پی سی بی کو کوئی ہدایت نہیں ملی،اگر ایسا ہو بھی گیا تو عمل درآمد میں وقت لگے گا اور رواں برس واپسی کا امکان خاصا کم ہے۔ البتہ سابق ٹیسٹ کرکٹر اقبال قاسم اس تاثر سے متفق نہیں، ان کے مطابق حکومت کوئی اعلان تو کرے ٹیموں کی تشکیل تو چند روز میں ہو جائے گی، ابتدائی طور پر فارغ کرکٹرز کو گریڈ ٹو ٹورنامنٹ میں کھلایا جا سکتا ہے۔ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو فوری طور پر بحال کرکے ایک تھنک ٹینک بنایا جائے جو اس حوالے سے تجاویز دے۔ حکومت میں تبدیلی کے بعد پی سی بی کے سربراہ کو بھی بدلنے کی اطلاعات زیرگردش تھیں تاہم تاحال خاموشی چھائی ہوئی ہے،وزیر اعظم شہباز شریف کو عہدہ سنبھالتے ہی کئی بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، ایسے میں کرکٹ دور دور تک ان کی ترجیحات کی فہرست میں شامل نہیں، گوکہ وزیراعظم کی بعض قریبی شخصیات چیئرمین کی کرسی پانا چاہتی ہیں مگر بورڈ کے سرپرست اعلیٰ نے تاحال اس معاملے میں دخل اندازی نہیں کی، رمیز راجہ کی برطرفی نیا  پینڈورا باکس کھول سکتی ہے کیونکہ وہ بااحسن انداز میں فرائض نبھا رہے ہیں۔اسی لیے حکومت نے اس معاملے کو فی الحال التوا میں رکھا ہوا ہے، بعض افراد کا خیال تھا کہ رمیز راجہ خود مستعفی ہو جائیں گے مگر انھوں نے ایک اہم شخصیت کے کہنے پر تاحال اس فیصلے سے گریز کیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی خواہش پر پی سی بی نے ڈومیسٹک کرکٹ کا نظام تبدیل کر دیا تھا، ڈپارٹمنٹس کی بندش سے ہزاروں کرکٹرز وہ دیگر افراد بے روزگار ہوئے، حکومت میں تبدیلی کے بعد اب یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ سابقہ نظام کو بحال کیا جا رہا ہے۔بہر حال رواں سسٹم کو بحال رہنا چاہئے یا پرانا سسٹم لاگو کیا جائے، قومی مفادات  اور کھیلوں کے فروغ کو مد نظر رکھا جانا چاہئے۔
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں