ایلس دنیا بھر میں اردو پڑھنے جاننے والوں میں فیض احمد فیض کی شریک حیات کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ ایلس 1914ء میں لندن میں پیداہوئیں۔ 1938ء میں یہ اپنی بہن کرسٹین سے ملنے ہندوستان آئیں جو ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کی بیوی تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے باعث ان کا قیام طویل ہوتا گیا۔ پھر واپسی بھی ممکن نہ رہی۔ فیض کا ڈاکٹر تاثیر سے ملنا جلنا بہت تھا۔ ایلس فیض کا بھی بہت سا وقت خوبرو نوجوان اور انقلابی شاعر فیض کے ساتھ گزرنے لگا۔ ان میل ملاقاتوں سے جہاں ان کے درمیان انسیت بڑھی وہاں ان کے درمیان کامریڈ پن کا ناتابھی جڑتا گیا۔ دونوں ہی انقلابی دل و دماغ کے مالک تھے ۔ ایلس کو فیض کے خلوص، سچائی اور ترقی پسندانہ خیالات نے بہت متاثر کیا۔ اس طرح ان کے درمیان ذہنی روابط محبت میں تبدیل ہو گئے۔ مختلف عقائد کے جوڑوں میں شادی کے بندھن کے موقع پر مذہب کی قربانی عام طور پر عورت ہی پیش کرتی ہے۔ یہ روایت یہاں بھی قائم رہی۔ ایلس نے شادی سے پہلے اسلام قبول کرلیا۔
بٹوارے کے بعد دونوں رہنے کے لیے امرتسر سے پاکستان چلے آئے ، جسے انھوں نے ایک وطن کے طور پر چنا۔ اب یہ جوڑا اپنی بساط کے مطابق اس کی تعمیر نو میں جت گیا۔ سولہ برس کی نوخیز عمر میں ایلس ایک کمیونسٹ کے طور پر زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر چکی تھیں۔ فیض سے انکی قربت اور محبت میں اس فیصلے کا بہت عمل دخل تھا۔ اس جوڑے نے عام لوگوں کی زندگی میں تبدیلی اور بہتری لانے کی اپنی بساط بھر جدو جہد شروع کر دی۔ اب ایلس کی زندگی انقلاب اور محبت کے درمیان جھولتی نظر آنے لگی۔ فیض ایک مزاحمتی شاعرتھاجس کی شاعری میںعام لوگوں کے لیے اچھے دنوں کی خواہش اور تمنا کروٹ لیتی رہتی ہے۔ 1951ء میں لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے والے گرفتار شہریوں میں فیض بھی شامل تھے۔ ان کا جیل کا یہ دورانیہ 1951ء سے 1955ء تک چار برسوں پر محیط رہا۔ یہیں سے ان کے کٹھن دن شروع ہوتے ہیں۔
ایلس نے انگریزی اخبار ’پاکستان ٹائمز‘ میں کالم نگار کے طور پر نوکری کرلی، جس کے فیض ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ ایلس نے کیا مزے کا منظر نامہ لکھا ہے۔ ’اخبار میں کام کرنے والے جونیئر سٹاف کے لوگ مجھ سے بات کرتے ہوئے گڑ بڑا جاتے ہیں۔ وہ مجھ کو بھی سر کہنا شروع کردیتے ہیں۔ بات کرتے ہوئے ہمارے بوڑھے بخت صاحب کو ہر جملے میں کبھی سر اور کبھی میڈم کہنے لگتے ہیں‘۔ اب وہ گھریلو اخراجات پورے کرنے کیلئے گاڑی بیچ کر سائیکل سواری پر آگئیں۔ چھوٹی موٹی ضرورتوں میں بھی زندگی ہاتھ روکنے کا سندیسہ دینے لگی۔ خطوں کی تحریروں سے دیانت، استقامت، ہمت ، صبر اور جرأت ٹپکتی ہے۔ مالی حالات کی تنگی ضرور ہے لیکن گھبراہٹ اور جھنجھلاہٹ بالکل نہیں۔ دونوں میاں بیوی کا عزم بلند ہے۔ ایک خط میں ایلس لکھتی ہیں، ’میں اپنے گھر کے لائونج میں بیٹھی دھوپ سینک رہی تھی۔ میرا خیال ہے کہ مجھے تم سے ملنے کے لیے جلدی ہی چکر لگانا چاہیے۔ میں تمھیں دیکھنے اور چھونے کی خواہش دبا نہیں سکتی۔ کافی مہنگی خواہش ہے لیکن اس خواہش کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا‘۔
مالی تنگی میں مبتلا ایک شخص نے یہ کہا تھا کہ جب میرا معالج مجھے پھلوں کے کثرت استعمال کی ہدایت کرتا ہے تو جی میں آتا ہے کہ اسی کا منہ نوچ کھائوں۔ یہی کیفیت ایلس فیض نے بھی لکھی ہے لیکن ان کے خیالات میں شائستگی، صبراور ٹھہرائو ہے۔ ’ڈاکٹر Seltzerنے مشورہ دیا ہے کہ پروٹین والی غذا کھائوں۔ گوشت، مچھلی، انڈے، ہری سبزیاں وغیرہ۔ کیسے؟ کیسے؟ کیسے؟‘ اس انتہائی پڑھے لکھے جوڑے کی ازدواجی نازک خیالیاں۔ لکھتی ہیں، ’تمھارے قطب تارے کی بات کرنے پر ریس کورس روڈ کے نزدیک امرتسر کی ایک بھولی بسری یاد آگئی۔ جب تم نے شیکسپیئر کا قول دہرایا تھا اور میں نے سوچا تھا کہ میں اس انسان سے کیسے شادی کر سکتی ہوں جو مجھے پیار کرنے کی بجائے شیکسپیئر سنا رہا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ میں اسی وجہ سے تم سے بہت بہت محبت کرتی ہوں‘۔ آگے چلیے۔ شوخی دیکھیے۔ لکھتی ہیں، ’بیٹی میزو بتا رہی تھی کہ کلاس کے تمام لڑکوں سے اس کی دوستی ہو گئی ہے۔ اب بتائو یہ لڑکی کس پر گئی ہے ؟‘آگے چلتے ہیں۔ لکھتی ہیں، ’سوچتی ہوں جب میں بوڑھی ہو جائوں گی، بال سفید ہو جائیں گے اور چہرے پر ہزار شکنیں پڑ جائیں گی تو کیا تب بھی تم مجھ سے محبت کرتے رہو گے ؟ لیکن تب تم اپنی بیٹیوں کی چاہت میں گرفتار ہو جائو گے ۔ لیکن خیر !تمھاری محبت گھر کی گھر ہی میں رہے گی ‘۔
ایک خط میں ایڈیٹر ’نوائے وقت ‘ جناب حمید نظامی کا ذکر یوں آیا ہے، ’میں نے تمھارے لیے کتابیں اور سگریٹ حمید نظامی کو دیدی ہیںاور مجھے یقین ہے کہ وہ بہت جلد تمھیں پہنچا دیں گے ‘۔ ایک انتہائی دکھ دینے والی خبر، یہ خط 28جنوری 1955ء کو لکھا گیا۔ یہ غیر سیاسی لوگوں کے راج پاٹ سے تین برس پہلے کا قصہ کہانی ہے۔ دل تھام لیجیے اور سنیے، ’پاکستانی روپیہ بلیک میں فروخت ہو رہا ہے۔ 75پاکستانی کے بدلے 140ہندوستانی ملتے ہیں‘۔ آج 15مئی 2023ء پاکستانی روپے کا کیا بھائو ہے؟ نہ پوچھو تو اچھا۔ راولپنڈی سازش کیس کے ملزمان کو جیل سے خط لکھنے کی سہولت میسر تھی۔ ان خطوط کو انگریزی زبان میں لکھنے کی پابندی تھی تاکہ سنسر کیے جاسکیں۔ فیض کے خطوط اردو ترجمہ کے ساتھ ’صلیبیں مرے دریچے میں ‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ جو اب علمی فن پارے کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ ایلس نے اپنے خطوط فیض کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے ایک برس بعد شائع کروائے۔ چند برس پہلے یہ خطوط اردو ترجمہ میں ’عزیز دلم‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ ترجمہ میں سارے حسن معانی بھلا کب ساتھ چلتے ہیں۔ بہت کچھ راہ میں ہی رہ جاتا ہے لیکن منیر رباب نے بڑی محنت سے شاندار ترجمہ کیا ہے۔ منیر رباب لکھتی ہیں، ’ایلس فیض کا نام لکھتے ہوئے، پڑھتے ہوئے کبھی کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آیا ہوگا کہ یہ ایک نہیں دو نام ہیں۔ ایک ایلس ہیں، دوسرے فیض ہیں اورشادی کے بعد فیض کا نام ایلس کے کندھے پر لٹکا دیا گیا تھا‘۔ ’ایلس اور فیض کی زندگی میں ہوا یہ کہ (ان خطوط کو پڑھنے کے بعد میں نے یہ جانا) جب فیض قلم تھام کرلکھنے بیٹھے تو ایلس ان کی چھتری بن گئیںاور چپکے سے فیض کے کان میں کہا ہوگا، ’تم لکھتے جائو ۔ دھوپ اوربارش سے میں تمھیں بچا لوں گی ‘۔ اور جواب میں فیض دھیرے سے مسکرا کر کوئی نظم لکھنے لگے ہوں گے ۔
کاغذ کے پیراہن میں لپٹی محبت
May 15, 2023