کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ہم انسان نہیں بلکہ جانوروں کا کوئی ریوڑ ہیں جنھیں چرواہا جب چاہتا ہے چھڑی سے ہانک لگا کے کہیں سے کہیں لے جاتا ہے اور ہم جگالی کرتے سر جھکائے چلے جارہے ہیں ۔چلیں جی مان لیا کہ عمران خان اس وقت ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں لیکن ساتھ ہی یہ اقرار بھی بنتا ہے کہ خان صاحب اس ملک کے سب سے زیادہ غیر سنجیدہ اور سیاسی شعور سے عاری انسان ہیں ۔ان کے نزدیک جمہوریت،الیکشن اور انتخابات کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ تاحیات وزیر اعظم بنے رہیں۔ اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں وہ مخالفین کو کچلنے کی خواہش کی بجائے اگر خود کو اور اپنے احباب کو ہر طرح کی مالی، اخلاقی اور سفارتی کرپشن سے دور رکھتے تو ممکنہ طور پر آج بھی ملک کے وزیر اعظم ہوتے اور ان کے مخالفین سڑکوں،جیلوں اور عدالتوں میں۔ اب خان صاحب مشکل میں ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات کی بھر مار ہے۔ تاریخ پہ تاریخ پڑ رہی ہے اور خان صاحب گرفتاری کے ڈر سے اپنے سامنے ایک حصار بنائے ہوئے ہیں ۔
چند دن پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ جاتے وقت انھیں شاید یقین تھا کہ ان پہ فرد جرم عائد ہوجائے گی اور وہ پھڑے جائیں گے۔اس لیے زمان پارک سے جاتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کروا گئے کہ میری گرفتاری پر کیا رد عمل دیناہوگا۔ نہ جانے کیوں جناب جیل میںدو راتیں گزارنے سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ انھوں نے اپنے کارکنوں کو تیار کیا ہوا ہے کہ ان کی گرفتاری کی صورت میں سب کچھ تہس نہس کردینا۔ چونکہ خان صاحب کئی مہینوں سے بار بار فوج کے افسروں پر الزام لگارہے تھے اس لیے ان کے گرفتار ہونے کے چند لمحوں بعد ہی مشتعل کارکن ڈنڈے، غلیلیں، پٹرول بمب کی بوتلیں اور دوسرے ہتھیار لیے پاک فوج کے خلاف نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے رستے بند ہونے لگے۔ مسافر گاڑیوں کی توڑ پھوڑ شروع کردی گئی اور ایک کے بعد ایک خبر چلنے لگی کہ بپھرے ہجوم نے کس شہر میں کتنا مالی اور جانی نقصان کیا ۔ پھر تحریک انصاف کے رہنماوں اور کارکنوں نے لاہور کورکمانڈر کے گھر حملہ کرکے وہ کام کردیا جس کے کرنے سے ہمارا پڑوسی ملک خوشی کے شادیانے بجانے لگا ۔
بھارت کے سارے ٹی وی چینل معمول کی نشریات روک کے براہ راست پاکستان پر پروگرام کر نے لگے اور سب ایک ہی خبر پہ زور دے رہے تھے کہ پاکستان جل رہا ہے ۔ پاکستانی لوگ جی ایچ کیو راولپنڈی اور لاہور کورکمانڈر کے گھر پر حملہ آور ہوچکے ہیں۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں نے جہاں خان صاحب کو اپنے سامنے دیکھ کے خوشی کا اظہار کیا وہیں ساتھ فرمایا کہ وہ اپنی گرفتاری کے بعد ہونے والی توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کی مذمت کریںگے لیکن ابھی تک خان صاحب کی طرف سے بلوائیوں کے خلاف مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات جاری کر رہے ہیں۔ پولیس اور دوسرے محکموں کے توسط سے بلوائیوں کی شناخت کی جارہی ہے ۔ امید ہے بہت جلد سب مجرم سلاخوں کے پیچھے ہوں گے لیکن میری طرح بہت سے محب وطن پاکستانی سوچ رہے ہیں کہ جس طرح ہماری عدلیہ خان صاحب کے ساتھ نر م رویہ اپنائے ہوئے ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ مشکل ہوگا کہ ان کارکنوںکو واقعی سزا ہوسکے۔ اب عمران خان کہتے ہیں کہ وہ تو قید میں تھے انھیں کیا پتا باہر کیا ہورہا ہے کبھی فرماتے ہیں کہ انھیں پکڑنے کا رد عمل تو آنا ہی تھا۔تحریک انصاف کی جانب سے ایسا رویہ پہلی بار نہیں اپنایا گیا، پہلے بھی تحریک انصاف کے لوگ پی ٹی وی پر حملہ کرچکے ہیں۔
میں پڑوسی ملکوں کی خبریں اکثر دیکھتا رہتا ہوں ۔ پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ بھارت کی چودہ پندرہ ریاستوں میں کئی عشروں سے علیحدگی کی مسلح تحریکیں چل رہی ہیں۔ طاقت اور سیاست سے بھارتی حکمران اپنی وحدت بچانے میں لگے ہوئے ہیں لیکن حیران کن نقطہ یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا بھارت میں چلنے والی تحریکوں اور ان کے پس منظر پہ تحقیقاتی اور تجزیاتی پروگرام کرتا نظر نہیں آرہا۔ دوسری طرف، بھارتی میڈیا ہر وقت پاکستان کے خلاف خبر بنانے اور مرچ مصالحہ لگا کے نشر کرنے کی دوڑ میں لگا رہتا ہے۔ پچھلے چند ہفتے بھارت میں اقلیتوں کے لیے بہت بھاری ثابت ہوئے۔ رمضان کے دنوں بھارتی ٹی وی پرویڈیو چل رہی تھی کہ ایک مسلمان ایم ایل اے کے بیٹے اسد کو یو پی پولیس کے جوانوں نے پولیس مقابلے میں مار دیا ہے پھر چند دن بعد معلوم ہوا کہ یوگی کے رام راج میں پولیس کی حراست میں ہونے کے باوجود تین لڑکوں نے مسلمان ایم ایل اے عتیق اور اس کے بھائی اشرف کو گولیاں مار کے قتل کردیا ۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ بھارتی ریاست تری پورہ میں نریندر مودی کی متشدد سوچ رکھنے والے جتھو ںنے کئی گرجا گھر جلا دیے۔ حالات اس قدر مشکل ہوگئے کہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کے محفوظ مقام کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتے دیکھے گئے۔ کئی اضلاع میں حالات کنٹرول کرنے کے لیے فوج طلب کی گئی، یعنی اصل آگ پاکستان میں نہیں بلکہ بھارت میں لگی ہوئی ہے۔ میراگمان ہے کہ حالیہ برسوں میں جس طرح بھارت میں اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کی زندگیاں مشکل بنائی جارہی ہیں آنے والے برسوں میں بھارت کئی ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ ہمیں اپنے پڑوس میں مسلمانوں کے حالات سے باخبر رہتے ہوئے دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنے والے ملک کی اہمیت سمجھ کر ہجوم سے قوم بننے کا سفر شروع کرنا چاہیے۔
٭…٭…٭
دو قومی نظریے سے ہجوم تک کا سفر
May 15, 2023