خواتین پر گھریلو تشدد کے اثرات پورے خاندان پر پڑتے ہیں

 بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کی وجہ قانون پر عمل درآمد میں مردوں کی طرف جھکائو اورسماجی دبائو کے ذریعے عورت کو خاموش کروادیناہے
خواتین تشدد سہہ سہہ کر تشدد کو روکنے کے قابل بھی نہیں رہتیں یعنی ان کی نفسیاتی صحت بہت زیادہ خراب ہوجاتی ہے یہاں تک کہ خواتین دُکھوں کے ساتھ ڈیل کرنے کے قابل بھی نہیں رہتیں 
جس وقت مرد غصے میں ہو عورت غصہ نہ کرے اگر وہ مارنے کی کوشش کررہا ہے تو پھر ایسے رشتہ داروں کو درمیان میں ڈالیں کہ جو اسکو سمجھا سکیں جن کی وہ سنتا ہوانکی عزت کرتا ہو
تحقیق یہ کہتی ہے کہ ایسے بچے جن کے ماں باپ میں طلاق ہوجاتی ہے تو وہ اتنے ڈسٹربڈ نہیں ہوتے جتنے ایک چھت میں ساتھ رہنے والے ماں باپ کے جھگڑوں کو دیکھ کر ڈسٹربڈ ہوتے ہیں:کلینکل سائیکالوجسٹ عطرت زھری 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنبرین فاطمہ 
پاکستان میں خواتین کی ایک بڑتی تعداد گھریلو تشدد کا شکار ہے۔خواتین پرتشدد معمول کی بات ہے بہت ساری خواتین اس لئے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتیں کہ لوگ کیا کہیں گے ۔گھریلو تشدد جتنا حساس مسئلہ ہے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اس لئے ہے کیونکہ سوسائٹی اسے اس طرح سے اسے جرم تصور نہیں کرتی جس طرح سے کیا جانا چاہیے ۔ بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کی وجہ ہی قانون اور اس پر عمل درآمد کا جھکائو مردوں کی طرف ہونا،سماجی دبائو کے ذریعے عورتوں کو خاموش کرانا،عورتوں کا قانون سے بے خبر ہونا اور مجموعی طور پر تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کے متعلق معاشرے اور ریاستی اداروں کا غیر ہمدردانہ رویہ ہے۔اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو خودمختاری ملی تو قانون سازی کا اختیار بھی ان کے پاس آیا اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے صوبوں نے اپنے لئے قانون سازی کی بھی کوشش کی ،ایسی ہی ایک کوشش پنجاب ،سندھ اور بلوچستان کی طرف سے گھریلو تشدد کا بل پاس کروا کر قانون بنانا تھا لیکن افسوس کہ تینوں صوبوں نے یہ قانون تو بنا لیا لیکن عملی نفاز ابھی تک زیرو ہے ۔عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ گھریلو تشدد دیہی علاقوں میں زیادہ ہوتا ہے یہ تصور بالکل بھی مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ کیونکہ شہری علاقوں میں بھی گھریلو تشدد بڑی تعداد میں ہوتا ہے فرق یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں گھریلو تشدد زرا نظر آجاتا ہے لیکن شہری علاقوں میں گھریلو تشدد نہ ہونے کے برابر رپورٹ ہوتا ہے ،غیر تعلیم یافتہ اور پڑھی لکھی دونوں ہی مار کھا رہی ہیں لیکن پڑھی لکھی خواتین زرا خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں ۔گھریلو تشدد سہنے والی خواتین کی زہنی صحت کیسی ہوتی ہے ، ان کے بچوں پر اس ساری صورتحال کا کیا اثر پڑتا ہے یہ جاننے کیلئے ہم نے کلینکل سائیکالوجسٹ عطرت زھری نقوی سے خصوصی بات کی ۔ ان سے پوچھا گیا کہ گھریلو تشدد کا شکار خواتین کی ذہنی اور جسمانی صحت کیسی ہوتی ہے؟تو انہوں نے جواب میں بتایا کہ گھریلو تشدد کا شکار خواتین کی زہنی اور جسمانی صحت بگڑ جاتی ہے وہ اکثر تنائو کا شکار رہتی ہیں۔یہ وہ زہنی تنائو ہوتا ہے جو ان کی زہنی ، جسمانی ، یہاں تک کہ روحانی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے، کیونکہ جب خواتین وکٹم موڈ میں جاتی ہیں تو وہ اللہ تعالی سے بھی اسکا شکوہ شکایت کرتی ہیں اور دعائیں کرتی ہیں ان کی اس تشدد سے جان چھٹ جائے ۔ گھریلو تشدد کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے ہے کہ خواتین تشدد سہہ سہہ کر تشدد کو روکنے کے قابل بھی نہیں رہتیں یعنی ان کی نفسیاتی صحت بہت زیادہ خراب ہوجاتی ہے کہ خواتین دُکھوں کے ساتھ ڈیل کرنے کے قابل بھی نہیں رہتیں ۔ کیا وہ مائیں جو شوہر سے مار کھاتی ہیں وہ اپنے بچوں کی خصوصی طور پر بیٹیوں کی تربیت ایسی کر پاتی ہیں کہ وہ انکی بچیاں بااعتماد اور مضبوط بنیں ؟ڈاکٹر عطرت نے اس پر کہا کہ ایسی مائیں جن پر تشدد ان کے بچوں کے سامنے ہوتا ہے ان کے بچوں کی زندگی پر یہ چیز بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ جن بچوں نے یہ سب دیکھا ہوتا ہے زندگی میں آگے چل کر ان کی زندگی خراب ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے میاں بیوی کے آپسی تعلقات میں خرابی دیکھی ہوتی ہے نہ چاہتے ہوئے وہی رویہ اپنا لیتے ہیں جو انہوں نے دیکھا ہوتا ہے  ۔بعض اوقات تو بچے خصوصی طور پر بیٹیاں یہ سب دیکھ کر باغی بن جاتی ہیں وہ اپنی زندگی کے فیصلے اس طرح کرتی ہیں جیسے خود سے انتقام لے رہی ہیں اور وہی فیصلے بعد میں انکی زندگی خراب کرتے ہیں ۔ یوں ایک انسان کی خرابی سے کئی انسان اور ان کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں لہذا جو مائیں باپ سے مار کھاتی ہیں وہ اپنی بیٹیوں کو بہت مشکل سے بااعتماد بنا پاتی ہیں ۔ جو خواتین گھریلو تشدد کی وجہ سے ڈری سہمی رہتی ہیں انکے زہنی مسائل وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہیں؟ جو خواتین ڈری سہتی رہتی ہیں ان کے زہنی مسائل وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جاتے ہیں ۔ خصوصی طور پر وہ خواتین جن پر تشدد ہوتا ہے وہ بھی اگر پرتشدد ہوجائیں تو پھر تو مسائل بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں اور کبھی بہتر نہیں ہوتے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ مینٹل ہیتلھ پر کام کیا جائے۔ اگر شوہر اپنا غصہ اور فرسٹیشن آپ پر اتار رہا ہے تو آپ انہیں عزت احترام کے ساتھ روکیں ، جو آپ کے زمہ کام ہیںوہ کریں ، گھر کی زمہ داریوں کو نبھائیں بچوں کو دیکھیں شوہر کو کھانا دیں اسکو صاف ستھرے کپڑے دیں ۔ لیکن شوہر کو آرام سے سمجھائیں کہ وہ جو کررہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے ایسا رویہ ناقابل برداشت ہے۔ ایک خاتون ایسے مرد کے ساتھ رہنے مجبور ہے جس سے اسکے بچے ہیں اور اسکا کوئی دوسرا سہارا نہیں تو وہ کیا کر سکتی ہے کہ معاملات بہتر ہوجائیں؟بعض اوقات عورت کا زہن اسکو مشورہ دیتا ہے کہ شوہر سے الگ ہوجائو اور اپنی زندگی سکون سے گزارو ، یہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بھی آپ کی زندگی میں سکون نہیں آئیگا کیونکہ بچوں کو تو دونوں کی ضرورت ہوتی ہے ماں اور باپ ۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر سے بات کریں اگر بات چیت سے مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو اور گھریلو تشدد میں کمی نہ آرہی ہو تو پھر شوہر کو علاج کے لئے آمادہ کریں،کسی سائیکائٹریسٹ کے پاس جائیں وہ آپ کے شوہر کی زہنی صحت پر کام کرے گا ، اسکا رویہ ٹھیک کرے گا اس کو نارمل کریگا۔ ہاں اگر شوہر نارمل غصہ کرتا ہے بات سن لیتا ہے تو ڈاکٹر گھر میں ہی اسکا ٹریٹمنٹ کردیتا ہے لیکن اگر پاگل پن کی حد تک شوہر میں غصہ ہے تو پھر یقینا ماہرین اسکے غصے میں کمی لانے اسکو نارمل کرنے کیلئے اسکی تھیرپی کرتے ہیں اسکو دوائیاں دیتے ہیں۔ گھریلو تشدد کرنے والے عادی مجرم ہوں تو بدل نہیں سکتے لیکن عورت پھر کس طرح  اس رشتے کولیکر چل سکتی ہے؟میں کبھی یہ نہیں کہوں گی کہ عورت ضرور تشدد کرنے والے مرد کو چھوڑ دے یا اس کے ساتھ رہے ، لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ عورت اپنی سیفٹی پر کام کرے۔ جس وقت مرد غصے میں ہے عورت غصہ نہ کرے اگر وہ مارنے کی کوشش کررہا ہے تو پھر ایسے رشتہ داروں کو درمیان میں ڈالیں کہ جو اسکو سمجھا سکیں جن کی وہ سنتا ہوانکی عزت کرتا ہو، ایسے لوگوںکو اس معاملے میں شامل کریں جو مناسب حل دیں فساد کروانے والوں کو درمیان میں نہ ڈالیں۔ماں کو مار کھاتا دیکھ کر اسکے بچے بچیوں کی ذہن پر کیا اثر پڑتا ہے؟بچوں کے زہن پر ایسے معاملات کا بری طرح اثر پڑتا ہے ، بچوں کے لئے دونوں اہم ہوتے ہیں بچے مسلسل کشمکش میں رہتے ہیں کہ کس کا ساتھ دیں ، تحقیق یہ کہتی ہے کہ ایسے بچے جن کے ماں باپ میں طلاق ہوجاتی ہے تو وہ اتنے ڈسٹربڈ نہیں ہوتے جتنے ایک چھت میں ساتھ رہنے والے ماں باپ کے جھگڑوں کو دیکھ کر ڈسٹربڈ ہوتے ہیں۔ماں باپ کوچاہیے کہ وہ بچوں کے سامنے مت لڑیں نہ بحث کریں ، کسی معاملے پر بات کرنی ہے تو بچوں کی غیر موجودگی میں کریں ۔ اس ساری صورتحال میں بطور کلینکل ڈاکٹر آپ کیا سجیسٹ کریں گی؟میں تو کہوں گی کہ میاں اور بیوی جن کے درمیان جھگڑا رہتا ہے وہ دونوں تھیرپی کا پارٹ بنیں ، دونوں اپنا علاج کروائیں ، شخصیت پر کام کریں ،اگر دونوں ایک دوسرے کیلئے نیگیٹیو سوچ لیکر چلتے رہیں گے تو پھر تعلقات خراب ہی ہوں گے کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ عطرت زھری نے کہا کہ جو عورت تشدد کا شکار ہوتی ہے بہت سی چیزیں اسکے اختیار میںہوتی ہیں عورت کو چاہیے وہ خود طے کرے کہ اسکو کس طرح ٹریٹ کیاجائے۔
َََََََََََََ

ای پیپر دی نیشن