تحریر: محمد عمران الحق۔لاہور
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی شب و روز کی انتھک محنت کے نتیجے میں آج ہم پاکستان جیسے آزاد ملک میں زندگی جی رہے ہیں۔ان کا یہ احسان ہے جو بطور پاکستانی کبھی ہم بھول نہیں سکتے۔المیہ یہ ہے کہ چیئر مین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے کارکنان کی جانب سے 9مئی کو جس طرح جناح ہاؤس لاہور پر حملہ ہوا، اس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی، نیزاس عمل کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہو گی۔ایسی شرمناک اور بے حسی کا مظاہرہ آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔بابائے قوم ہم شرمندہ ہیں، آپ کے احسانوں کا بدلہ یہ ہوگا کبھی سوچا نہ تھا۔ہاں ہم واقعی شرمندہ ہیں۔ہم اپنے بزرگوں کے احسان کا بدلہ ان کی یاد گاروں کو ختم کر کے دے رہیں، کتنے شرم کی بات ہے۔ پوری دنیا میں قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔سیاست دان وقتی مفادات کے حصول کی خاطر ریاست کو کس جانب لے کر جا رہے ہیں، اس کا عملی مظاہرہ قوم نے دیکھ لیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ تھے جھنوں نے اپنے ہی اداروں کو نشانہ بنایا؟۔ ان کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہئے۔
جناح ہاؤس میں اس وقت رہائش کے تمام کمرے اور سامان جل کر خاکستر ہو چکا ہے جن میں دیواروں پر لگے سوئچ بورڈز تک شامل ہیں۔عمارت کے اندر اور باہر کی دیواریں سیاہ ہو چکی ہیں جبکہ یہاں موجود ایک مسجد جسے ’اولڈ مسجد‘ کہا جاتا ہے اس کے دروازے اور کھڑکیوں کے شیشے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ اس مسجد کی جالیاں بھی جل چکی ہیں۔بابائے قوم کی کثیر تاریخی تصاویر، زیر استعمال صوفہ سیٹ، سنوکر ٹیبل، کرسیاں، سگاردان، گلدان، بستر، جوتے اور کپڑوں سمیت 1500 سے زائد تاریخی نوادرات جناح ہاؤس کے تین مختلف کمروں کی زینت تھیں، شر پسندوں کے دنگا فساد کے دوران قائدِ اعظم محمد علی جناح کی تمام تر نادر نوادرات جلا کر خاکستر کردی گئیں اور پورے گھر کو آگ کے شعلوں کے سپرد کر دیا گیا۔بابائے قوم محمد علی جناح کی لاہور میں ذاتی جائیداد، جو کبھی جناح ہاؤس کے نام سے مشہور تھی، اس وقت کور کمانڈر کی سرکاری رہائش گاہ کے طور پر کام کرتی ہے۔جناح ہاؤ س تقریبا ساڑھے چار ایکڑ پر محیط ہے۔ یہ گھر دراصل بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ملکیت تھا جو انہوں نے تقسیم ہند سے پہلے خریدا تھا۔ دستیاب معلومات کے مطابق ’قائد اعظم نے یہ گھر موہن لال نامی شخص سے 12 اکتوبر 1943 کو خریدا تھا۔ مگر بابائے قوم اس گھر میں کبھی رہائش نہ رکھ سکے۔قائد اعظم کے انتقال کے بعد 1950 میں یہ بنگلہ وزارت دفاع نے پانچ سو روپے کی لیز پر لیا اور اسے جنرل آفیسر کمانڈنگ 10 ڈویڑن کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔1959 میں وزارت دفاع نے قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح سے یہ گھر تین لاکھ 50 ہزار روپے میں خرید لیا۔1966 میں اس گھر کو بطور کور کمانڈر ہاؤس استعمال کیا جانے لگا اور 1976 میں اس گھر کو جناح ہاؤس کا نام دیا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ جناح ہاوس اور دیگر سرکاری عمارتوں کا رخ کرنے کا پلان کہاں بنا َ؟ کون اس میں براہ راست اور بلواسطہ ملوث ہے؟ کیا یہ سب کچھ مظاہرین نے خود بخود ترتیب دیا؟ تو اس سوالوں کا جواب اتنا ہے کہ یہ سب کچھ پری پلان کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جس انداز میں تحریک انصاف کے مقامی،ضلعی اور مرکزی قیادت کے لوگ عوام اور اپنے کارکنوں کو اکساتے رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ بلکہ اس پر باقاعدہ پلان بنایا گیا تھا۔
آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں کہ یہ کیا ہو رہا ہے ملک میں، ہر طرح آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، لوگوں کو سیاسی انتہا پسندی کی بھنٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ نفرتوں کے بیج بوے جا رہے ہیں۔ کیا یہ سب لوگ مسلمان نہیں یا یہ پاکستانی نہیں؟ سوچنا ہو گا۔ورنہ داخلی انتشار اور محاذ آرائی سے ہم دشمنوں کا کام آسان کر رہے ہیں۔اس عمل سے پاکستان کی عزت میں اضافہ ہو گا اور نہ ہی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔آج وقت سیاست نہیں بلکہ پاکستان کو بچا نے کا ہے۔تمام اسٹیک ہولڈر افہام و تفہیم کا عملی مظاہرہ کریں، سیاسی اناؤں سے باہر آئیں اور ملک و قوم کے لئے سوچیں۔اسی میں ہی ملک و قوم کی بقا ہے۔ اللہ تعالی ہمارے حامی و ناصر ہو۔ آمین۔