ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail
ہم نو مئی دوپہر دو بجے اپنے ساتھی وکلا کے ساتھ سپریم کورٹ نمبر دو میں تین رکنی بینچ میں پیش تھے۔اسی دوران خبر ملی کہ عمران خان کو اسلام اباد ہائی کورٹ سے گرفتار کر لیا ہے۔ہمارا یہ کیس نارمل حالات میں چلتا رہا ،بنچ نے سپریم کورٹ بار اور سپریم کورٹ بار کونسل کے مابین صلح کرا دی۔ اس کے بعد سپریم کورٹ صدر اور بار سیکرٹری نے ساتھی وکلا کے اعزاز میں لنچ دیا۔ یوں ہم تین بجے رخصت ہوئے ۔ خبر گرم تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے گرفتاری پر ایکشن لیا ۔پندرہ منٹ میں آء جی پولیس اور سیکٹری کو طلب کر لیا۔ کاش یہ بھی حکم فرماتے کہ کوئی کسی شاہراہ کو بند نہیں کیاجائے مگر ان کے خدشات گرفتاری تک محدود رہے دو درجن سے زیادہ کیسوں میں ہر بار ضمانت دیتے رہے ۔ان کو کیسوں میں ریلیف ملتا رہا عدالتی احاطہ سے میں گرفتار کر کے عمران کو لے جایا گیا۔ چیف صاحب نے اس پر عدالت لگائی ۔فریقین کو سنا گیا تھا پھر رات گئے فیصلہ سنا دیا کہ گرفتاری قانون کے مطابق کی گئی مگر غلط جگہ سے کی گئی جب کہ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ یہ ایکشن اس لئے لیا گیا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار عمران خان کے قریبی ساتھی ہیں۔ انہی کو اقتدار میں لانے کے لئے سپریم کورٹ کے’’ اچھوتے فیصلے‘‘ کیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے بابا رحمت کی بھانجی کے شوہر اسلام ابادہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں جس کی وجہ سے ریلف ملتا گیا ۔گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تمام مین روڈ سمیت ایکپریس وے کو مٹی بھر انتشار پسندوں نے بند کر رکھا تھا مگر کسی نے انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں کیا تھا۔ سوال ہے کہ یہاں سیکورٹی اداروں نے شہریوں کی مدد کو کیوں نہیں پہنچے۔ لاہور اور راولپنڈی کے اہم سرکاری اداروں کی توڑ پھوڑ جو کر رہے تھے انہیں بھی روک نہ سکے ۔جب ان کے اپنے ادارے محفوظ نہیں تھے تو عام شہری کی حفاظت کا کیا شکوہ کرنا ؟۔سوال یہ بھی ہے کہ اس پر کسی نے سو موٹو کیوں نہیں لیا۔ اسلام آباد سیکورٹی اداروں نے نے ٹیکنالوجی سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ریڈ زون کے بڑے داخلی راستوں پر لوہے کے گیٹ لگا کر مشکلات پیدا کر رکھی ہیں ۔ حکومتی ادارے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔گرفتاری کے بعد اپنی املاک کو بچا اس لئے نہیں سکے اگر ری ایکشن کرتے تو خون خرابہ ہوتا جس سے بہت نقصان ہوتا۔ دلیر آدمی ہی درگزر کرتا ہے۔انہیں صبر کا پھل ضرور ملے گا۔عدلیہ کی کہانیاں بہت ہیں لہذا احتیاط کی انہیں ضرورت تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا ۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے الیکشن کا کیس جب لاہور ہائی کورٹ میں چل رہا تھا تو چیف صاحب نے اس پر بھی سوموٹو لے لیا تھا پھر واپس لینا پڑا۔اب جب کہ ان کی مدر ان لا ء کی ٹیپ چل چکی ہے تو مزید احتیاط کی ضرورت تھی مگر اتنے جذباتی ہوئے کہ بلا کر کہا دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا ۔وہ کچھ فرماتے رہے جو عام طور پر ججز ایسے فقرے ملزم کو نہیں بولتے۔گرفتاری غیر قانونی قرار دی لیکن ملزم کو بری کرنے کے باوجود گھر جانے نہیں دیا ۔عدلیہ کا مہمان بن کر رکھا ۔جہاں صدر عارف علوی نے ان سے ملاقات کی۔ اس کیس میں گرفتاری کے دوران پولیس نے ڈنڈے مارے جس سے ویل چیئر کی ضرورت نہ رہی۔ اس کے بعد سے خود چل کر پیش ہوتے رہے .انہیں ڈنڈے مارنے والوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنکی بدولت پھر سے چلنا نصیب ہوا ۔ اس کیس میں جو کچھ ہوا اس نے سب کو بے نقاب کر دیا ۔پھر وہ شور اٹھا جس نے عدلیہ کے فیصلوں پر انگلیاں اٹھا دیں۔ماضی کے زخم زندہ کر دیئے ۔ اب لوگ کہہ رہے ہیں عدالتوں میں فیصلے قانونی نہیں اپنی پسند اور ناپسند کے ہوتے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ہر کہانی انٹرول کے بعد شروع ھوتی ھے ۔ یہ آج کل اسٹیبلشمنٹ کے خلاف خوب گالم گلوچ کر رھے ہیں، یہ جان بوجھ کر بھول جاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کو اسٹیبلش کیا تھا ورنہ 20 سال تک یہ ایک سیٹ والی پارٹی ہی رہتی ۔ ہر قسم کا الزام جو وہ آج اسٹیبلشمنٹ پر لگا رھے ہیں ان سے کہیں زیادہ ناانصافیاں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر اپوزیشن کے خلاف روا رکھیں تھی۔کہا جاتا ہے اسٹیبلشمنٹ جو ڈیشری اور پی ٹی آئی کا مک مکا2013 کے الیکشن سے پہلے ھو چکا تھا ۔ عمران خان کے باجوہ صاحب کے بارے میں قصیدے سینکڑوں کے حساب سے نیٹ پر موجود ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس وقت بھی شکایتیں تھیں لیکن اس وقت ان کے خلاف شکایت کرنے والوں کو اسی گروپ میں طعن و تشنیع سے نوازا گیا اور اسٹیبلشمبٹ کے بینیفشری نے وفاداری کا حق عدل کے تقاضوں سے بڑھ کر ادا کیا۔ماضی کی جوڈیشری نے دو حاضر وزیر اعظم نااھل کئیے تھے ایک وزیر اعظم کو تا حیات نااھل کیا گیا جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہ تھی ۔ایک سابق صدر اور سابق وزیر اعظم اور لا تعداد وزرا کو کئی کئی ماہ تک جیل میں رکھا گیا اور ان پر ظلم و تشدد کی وڈیوز بنا کر اپنی انا کو تسکین پہنچائی اور حد یہ ھے کہ حکومت جانے کے بعد بغیر کسی کے سوال پوچھے خود ھی اپنے گناہ کا اقرار کیا کہ زیادتیاں کی تھیں لیکن آفرین ھے ان سب سیاسی پارٹیوں پر اور سیاسی ورکرز پر جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے شکایت تو روا رکھی لیکن کبھی ان ملک دشمن کارروائیوں کا عشر عشیر نہیں کیا جو آج پی ٹی آئی اور اس کے سپورٹرز کر چکے ہیں
فلم انٹرول سے پہلے دیکھیں تو جن حالات سے ملک گزرا اور گزر رھا ھے۔اب تمام چہرے بے نقاب ہو چکے ہیں ۔اس کی ابتدا پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور جوڈیشری گٹھ جوڑ سے ھوئی اور یہ تینوں اس موجودہ حالات کے ذمہ دار بھی ہیں۔ سچ تو یہ ہے ہم سب کے قصور کی سزا اس ٹریکا کے زریعہ سے سب کو مل رہی ہے۔ جو اسے جس مقاصد کے لائے تھے آج ان کے وہ مقاصد پورے ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ہمارے ادارے لانے والوں کے سہولت کار تھے۔ وہ ہر ادوار میں اپنی مرضی کے حکمران مسلط کرتے رہے ۔آج ان کو ایسے بندے کی ضرورت تھی جو تمام اداروں کا بیڑا غرق کرتا وہ کام اس سے لیاجارہا ہے ۔