بھارتی میڈیا کے ساتھ جس انداز میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی بات چیت کر رہے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ واقعی ایشیا کپ کی میزبانی، رواں سال بھارت میں کھیلا جانے والا ون ڈے ورلڈکپ اور پھر 2025 ءکی چیمپئنز ٹرافی کو سامنے رکھ کر پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کارڈز کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے بہت واضح انداز میں ناصرف پاکستان کا موقف پیش کیا ہے بلکہ پاکستان بھارت کرکٹ کے معاملے پر مختلف پہلوو¿ں کو سامنے رکھتے ایک ہی مسئلہ حل کرنے کیلئے ایک سے زیادہ قابل غور اور قابل عمل منصوبے پیش کر دیئے ہیں۔ گوکہ دنیا جانتی ہے کہ بھارت کا پاکستان سے نہ کھیلنا خالصتا ایک سیاسی فیصلہ ہے لیکن اس معاملے پر اتنی کھل کر بات ذرا کم ہوئی ہے لیکن اس مرتبہ نجم سیٹھی نے اس پہلو کو بھی اجاگر کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے بھارتی میڈیا کو انٹرویوز میں پاکستان کے موقف اور بھارت کے خودساختہ اصولی موقف کی بھی دھجیاں بکھیری ہیں۔ نجم سیٹھی نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کو دیوار سے نہ لگایا جائے۔ نجم سیٹھی ہر حال میں کوشش کر رہے ہیں کہ ایشیا کپ کی میزبانی پاکستان کے پاس رہے اور مستقبل میں بھی عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ اور 2025 ءکی چیمپئنز ٹرافی کا بھی بہتر حل سامنے آئے تاکہ پاکستان اور بھارت کے مقابلے اے سی سی اور آئی سی سی کے ٹورنامنٹس میں بغیر کسی بدمزگی کے کھیلے جائیں۔ یہاں تک یہ بات درست ہے کہ وہ بھارت سے کسی غیر معمولی یا اضافی چیز کا تقاضا نہیں کر رہے حالانکہ کرکٹ سیریز کے معاملے میں بھارت پاکستان کا مقروض ہے لیکن پھر بھی نجم سیٹھی عملی اقدامات اور قابل عمل تجاویز کےساتھ میدان میں ہیں۔ وہ کرکٹ کھیلنے والے تمام ممالک کو پاکستان اور بھارت میچز کی اہمیت اور عالمی مقابلوں میں روایتی حریفوں کے مابین میچز نہ ہونے کے مضر اثرات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بنیادی طور پر انہوں نے دنیا کو جگانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ نجم سیٹھی نے بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کا ضمیر جھنجھوڑنے کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ اس مہم میں سب سے خاص چیز پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین کی طرف سے بھارتی میڈیا کے ساتھ بات چیت ہے۔ نجم سیٹھی اپنے موقف میں بہت واضح ہیں اور ان کے پاس اپنے موقف کے لیے ایسے دلائل ہیں کہ کوئی عقل سمجھ شعور رکھنے والا انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا۔ شرط یہ ہے کہ آپکی آنکھوں پر تعصب کا پردہ نہ ہو اور آپکی سوچ پر مالی مفادات کا قبضہ نہ ہو اگر آپ زمینی حقائق کو دیکھیں گے تو نجم سیٹھی کی باتوں کو ماننا پڑے گا۔
پاکستان کے سابق چیئرمین رمیز راجہ ایک سوال پر بھارتی صحافی سے الجھ پڑے تھے یہاں نجم سیٹھی تو بھارتی صحافیوں کے درجنوں سوالات کے جوابات دے رہے ہیں ان میں سے بعض سوال ایسے ہیں جو خالصتا سیاسی ہیں انہوں نے سیاسی سوالات پر بھی دلیل کے ساتھ جواب دیتے ہوئے گیند سوال کرنے والوں کے کورٹ میں ہی پھینکی ہے۔ اگر بھارت اپنے موقف میں اتنا ہی سچا ہے، غیر متعصب اور غیر جانبدار ہے تو کیا نجم سیٹھی کی طرح اے سی سی کے صدر اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری جے شاہ پاکستانی صحافیوں کو انٹرویوز دے سکتے ہیں۔ کیا وہ اس جرات کا مظاہرہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں ایشیا کپ نہ کھیلنے اور نجم سیٹھی کے مجوزہ ہائبرڈ ماڈل پر اپنا نقطہ نظر بیان کر سکیں، کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں پاکستان کےساتھ کرکٹ نہ کھیلنے کی پالیسی بھارتی حکومت کی طرف سے ہے یا پھر بی سی سی آئی اس میں آزاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندرا مودی کی حکومت ہی بھارتی کرکٹ بورڈ کو روکے ہوئے ہے۔ کیونکہ جب دنیا کی تمام ٹیمیں پاکستان آ کر کھیل رہی ہیں تو پھر بھارت کے بہانوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ نجم سیٹھی نے بہترین اور دلیرانہ انداز میں پیش کر کے پاکستانی قوم کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کی ہے۔
ایسے وقت میں جب پاکستان سپر لیگ میں دنیا بھر کے کھلاڑی ایک ہی وقت میں مختلف ٹیموں کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان میں موجود ہوتے ہیں پھر آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز، سری لنکا اور بنگلہ دیش سمیت تمام ٹیمیں پاکستان میں کھیل چکی ہیں تو بھارت کس بنیاد پر ادھر ادھر کی باتیں کر رہا ہے۔ یہ وقت ہے کہ دنیا کو کھیل کی شاندار روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کو اب بھی امید ہے کہ اس نے ایشیا کپ کی میزبانی کے سلسلے میں جو ہائبرڈ ماڈل پیش کیا ہے بھارت اس پر رضامندی ظاہر کردے گا۔یاد رہے کہ یہ ہائبرڈ ماڈل پاکستان کرکٹ بورڈ کی منیجمنٹ کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے پیش کیا ہے۔بھارت ایشیا کپ کیلئے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کرچکا ہے جس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے ایشین کرکٹ کونسل کے حکام سے ملاقاتیں کی تھیں تاکہ ایک معقول حل نکالا جاسکے۔ نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ جب تک بھارت پاکستان کے ساتھ دوطرفہ کرکٹ اور خاص کر پاکستان آکر نہیں کھیلتا یہ ہائبرڈ ماڈل ایک بہترین حل ہے جس کے مطابق بھارت ورلڈ کپ اور چیمپینز ٹرافی میں پاکستان کے ساتھ اپنے میچز نیوٹرل مقام پر کھیل لے اور دیگر میچز میزبان ملک میں کھیلے جائیں۔
یاد رہے کہ بھارت کو اس سال اکتوبر نومبر میں ورلڈ کپ کی میزبانی کرنی ہے جبکہ 2025 کی چیمپئنز ٹرافی کا میزبان پاکستان ہے۔نجم سیٹھی کا خیال ہے کہ انہیں ہائبرڈ ماڈل ان دونوں بڑے ایونٹس یعنی ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی میں بھی قابل عمل ہوسکتا ہے کیونکہ ورلڈ کپ میں یہ صورتحال پیش آسکتی ہے کہ اگر حکومت پاکستان نے انہیں پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کیلئے بھارت نہ بھیجنے کا کہا کہ ہمیں وہاں سکیورٹی کے خدشات لاحق ہیں تو پھر کیا ہوگا؟۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں صرف ایشیا کپ نہیں بلکہ ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی کے سلسلے میں بھی فکر ہے۔نجم سیٹھی نے کہا کہ چیمپئنز ٹرافی کا میزبان پاکستان ہے اور اگر بھارت آئی سی سی سے کہتا ہے کہ وہ پاکستان میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں لہذا یہ ایونٹ کہیں اور منتقل کردیا جائے لہذا یہ مسئلے کا حل نہیں۔ انہوں نے جو ہائبرڈ ماڈل کی شکل میں جو تجویز پیش کی ہے وہ اس مسئلے سے نکلنے کا معقول حل ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نجم سیٹھی نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ پاکستان ایشیا کپ کے صرف چار میچ بھی اپنے یہاں کرانے کیلئے تیار ہے اور بقیہ تیرہ میچ نیوٹرل مقام پر کھیلے جائیں۔ وہ ایشیا کپ کا فائنل بھی نیوٹرل مقام پر کرانے کیلئے تیار ہیں جو پاکستانی ٹیم کا بھارت یا کسی بھی ٹیم کے ساتھ ہو۔نجم سیٹھی نے اس تاثر کو غلط قرار دے دیا کہ وہ کسی کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔وہ یہ بات واضح کردیں کہ وہ قطعاً مثبت سوچ رکھے ہوئے ہیں اور اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔وہ آسانی سے یہ بات کہہ سکتے تھے کہ اگر بھارت پاکستان آکر کھیلنا نہیں چاہتا تو ہم بھی بھارت جاکر نہیں کھیلیں گے لیکن انہوں نے ہائبرڈ ماڈل کے ذریعے مسئلے کا حل پیش کرنے کی کوشش کی۔نجم سیٹھی نے امید ظاہر کی کہ بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ جو ایشین کرکٹ کونسل کے صدر بھی ہیں پہلا قدم اٹھائیں گے اور ایشیا کپ کے بارے میں پاکستان کے ہائبرڈ ماڈل کو قبول کرلیں گے تاکہ ایشیائی ممالک کا اتحاد قائم رہے۔
نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ جے شاہ نوجوان ہیں اور آئی سی سی کا سربراہ بننے کی خواہش بھی رکھتے ہیں لہذا ان کو یہی مشورہ ہے کہ اگر وہ لیڈر بننا چاہتے ہیں تو سب کو ساتھ لے کر چلیں اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دیں کہ جب آپ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر تھے وہ ٹوٹ گئی۔نجم سیٹھی نے یاد دلایا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہمیشہ سے ایشیائی ممالک کی مدد کرنے میں پیش پیش رہا ہے جس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ آسٹریلیا نے افغانستان کی ٹیم کی میزبانی سے انکار کیا تو پاکستان نے افغانستان کیساتھ ٹی ٹونٹی سیریز کھیلی اسوقت ہماری یہی سوچ کارفرما تھی کہ آسٹریلیا سے نہ کھیلنے سے افغانستان کو جو مالی نقصان ہوا ہے وہ ہم سے کھیل کر کچھ نہ کچھ اس کی تلافی کرسکے۔نجم سیٹھی نے کہا کہ ہم تمام ساتھی ممالک کےساتھ تعاون کرتے آئے ہیں۔ ہمارا کسی کےساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی کا ہمارے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ یہ صرف بھارت ہے۔