پیام سحر .... سید مشرف کاظمی
syedmusharfkazmi@gmail.com
بلا شبہ و طن عزیز میں سیاست کے پودے کو قدر آور شجر بننے میں بڑے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ جان کی قربانی ،مال کی قربانی حتمی کہ عزت نفس کی بھی قربانی دینا پڑی۔ سیاست میں بھاری قیمت پیپلزپارٹی کو چکانا پڑی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو پر دشت گردانہ حملہ سیاست کے طالب علم کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ دنیا کا سیاسی نظام کدھر جا رہا ہے اور ہم کہا ں کھڑے ہیں اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ سیاسی جماعتوں میں سب سے زیادہ مظلوم جماعت پیپلزپارٹی ہے جس کے پاس شہدائ کی لمبی فہرست ہے اس کے باوجود سیاسی اور منافقت پر مبنی مقدمات پیپلزپارٹی کی قیادت کا مقدر بنا دیئے گئے مگر ہمیشہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے آئینی اور قانونی راستہ اختیار کیا اور وہ سر خرو ٹھہری جس کی واضح مثال صدر آصف زرداری کی ذات پر لگائے گئے الزامات ہیں۔ جن کا زیر نظر مضمون میں احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہٹلر کے دست راز گوبیلز کے مطابق جھوٹ اتنا بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہو یہی کچھ نواز شریف نے کیا تھا۔ اب عمران نیازی اینڈ کو کر رہے ہےں اور آصف علی زر داری کو پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہونے کے بعد پہلی دفعہ 10 اکتوبر 1990 کو گرفتار کیا گیا تھا اور فروری 1993کو رہائی ملی دوسری دفعہ پانچ نومبر سن انیس سو چھیانوے کو لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔ایک اہم مقدمہ کی روداد کا ذکر اس کیس جو کہ آخری تھا ساڑھے 8سال بعد 21نومبر 2004کو رہائی ملی ۔ مسلسل قید آصف علی زر داری پر قتل اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ مقدمات درج کیے گئے تھے ۔
بی ایم ڈبلیو کار کیس کے نام سے مشہور مقدمہ میں آصف علی زرداری کی ضمانت نہیں ہوئی تھی اور انہوں نے سپریم کورٹ میں اس سلسلے میں اپیل دائر کی تھی۔ اس مقدمہ میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے کسی اور کے نام پر کار درآمد کی اور اس پر کم کسٹم ڈیوٹی ادا کرکے کلیئرنس حاصل کی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی کی سربراہی میں قائم فل بینچ نے جس میں جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور جسٹس شاکراللہ جان بھی شامل تھے سماعت کے بعد دس لاکھ روپوں کے مچلکے داخل کرنے کے عوض ان کی ضمانت منظور کر لی۔ آصف علی زر داری کی وکالت بیرسٹر اعتراز احسن، فاروق ایچ نائیک اور ڈاکٹر بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کی جبکہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایڈووکیٹ ابراہیم ستی پیش ہوئے۔ دوران سماعت جب استغاثہ کے وکیل نے ضمانت کی مخالفت کی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب گاڑی درآمد کرنے والے شخص اور بعد میں خریدنے والے شخص سمیت کسی پر مقدمہ نہیں بنا تو کیا صرف زر داری پر مقدمہ بنانا بدنیتی پر مبنی نہیں ہے؟عدالت کے استفسار پر کہ یہ مقدمہ اس وقت کیوں داخل ہوا جب درخواست گزار کی ضمانت منظور ہوئی استغاثہ کا کہنا تھا کہ یہ محض اتفاق ہے۔ استغاثہ کے مطابق دوسروں کے نام پر یہ گاڑی زر داری نے درآمد کی اور یہ ظاہر نہیں کیا کہ یہ بلٹ پروف،گاڑی ہے انہوں نے دعویٰ کیا کہ صرف پچپن لاکھ روپے ڈیوٹی ادا کی گئی جبکہ اس سے ایک کروڑ روپے کا قوی خزانے کو نقصان ہوا۔
ا۔ وکیل صفائی اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے اور ان کا موکل اٹھ سال سے مسلسل قید میں ہے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد مختصر حکم سناتے ہوئے ضمانت منظور کر لی۔ زر داری کے وکیل کے مطابق ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ جب بھی آصف زر داری کسی مقدمہ میں ضمانت حاصل کرتے تو حکومت اسی روز نئے مقدمہ میں ان کی گرفتاری کر دیتی اور وہ رہا نہیں ہوتے۔ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کے بعد 5نومبر 1996ئ کو لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔ زر داری کے ایک اور وکیل فاروق نائیک کے مطابق ان کے خلاف مختلف حکومتوں نے سترہ قتل بدعنوانی اور دیگر الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے تھے انہوں نے بتایا کہ چھ مقدمات میں وہ رہا ہوچکے ہیں جبکہ اب بھی سات بدعنوانی ،ایک منشیات اور تین قتل کے مقدمات ان کے خلاف صوبہ سندھ اور پنجاب کی مختلف عدالتوں میں جن میں سب مقدمات میںباعزت بری ہوئے۔ مذکورہ صورتحال کے مطابق جس سیاسی لیڈر پر اسقدر مقدمات ہوں کیا وہ مستند اقتدار تک پہنچ سکتا ہے یقینا اس کا جواب ہو گا کبھی نہیں مگر آصف علی زرداری نے اس نہیں کو ہاں میں بدل دیا دو مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو تمام تر مخالفت کے باوجود وزیر اعظم بنی ان کے سیاسی حریفوں نے ہر منفی پروپیگنڈہ محترم آصف علی زر داری پر بنائے گئے تھے ان مقدمات میں عدالت سے سر خرو قرار پائے اور دوسری مرتبہ وطن عزیز کے سب سے معتبر عہدہ صدرات تک پہنچنے میں کامیاب ٹھہرے آصف علی زر داری نے سیاسی حوالے سے یہ ثابت کیا کہ وہ فہم و فراست میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے مگر اس کے باوجود ان کے خلوص بھرے طرز سیاست کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کوئی سوچ سکتا ہے کہ جس طرح مسلم لیگ (ن) سیاست سے ملک بدر ہوئی تھی دوبارہ اس کے سر وزرات اعظمیٰ کا تاج سج سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پاکستانی سیاست میں واپسی کی راہ صدر آصف زرداری نے ہی ہموار کی تھی۔ جب سیاسی ماحول بنا تو ملک کے تمام بڑے تجزیہ کار کہہ رہے تھے کہ میاں محمد نواز شریف وطن واپس آکر وزیر اعظم کا عدہ سنبھالنے گئے مگر جن قارئیں کا حافظ درست ہے ان کو بخوبی یا د ہو گا کہ صدر آصف زر داری نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ میاں نواز شریف کا وزیر اعظم بننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ہاں البتہ میاں شہباز شریف کے لیے میدان خالی ہے پھر سب جاگتی آنکھوں نے دیکھا ایسا ہی ہوا عدم اعتماد کی ووٹنگ کے بعد وزیر اعظم بھی میاں شہباز بنے اور عام انتخابات کے بعد بھی میاں شہباز شریف ہی وزیر اعظم کے طور پر سامنے آئے۔ آصف علی زرداری کا دوبارہ صدر مملکت منتخب ہونا محض خواب نہیں بلکہ ایک مسلسل جد وجہد کا ثمر ہے پاکستان پیپلزپارٹی سیاسی حوالے سے جن مسائل اور مشکلات سے دوچار رہی دیگر سیاسی جماعتیں اس کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں اور پیپلزپارٹی میں فرق یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے بر وقت سیاسی فیصلے کئے اور سیاست میں انا کو اہمیت نہیں دی۔ میں نہ مانوں کی رٹ سیاسی جماعتوں کا حلیہ بگاڑی دیتی ہے یہی صورتحال اب پی ٹی آئی کی ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی فہم تفیہم پر یقین رکھنا ہو گا۔ اس وقت وطن عزیز میں مسلم لیگ کی حکومت ہے مگر دیگر سیاسی جماعتیں بالخصوص پیپلزپارٹی بھی شریک اقتدار ہے شاہد اسی حوالے سے عوام بالخصوص سرکاری ملازمین ےہ توقع رکھتے ہےں آئندہ مالی بجٹ مےں مہنگائی کے تناسب سے ان کو رلےف دےا جائے گا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ عوام کی بہبود اور بہتری کے لیے انتہائی مثبت اقدام اٹھائے۔ بالخصوص سرکاری ملازمین کے حقوق پر کبھی ڈاکہ نہیں ڈالنے دیا گیا۔