یادیں ....زاہد احمد خان
ماں کی ہستی اولاد کے لئے سب سے بڑی نعمت اور مضبوط سہارا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولاد کو ہر قدم پر ماں کی ضرورت درکار ہوتی ہے اور وہ اسی سے اپنی ہر تکلیف و پریشانی بلاجھجک بیان کر سکتی ہے۔ مادی معاملات ہوں یا روحانی ہر قدم پر ماں ہی یاد آتی ہے۔ صوفی شاعر شاہ حسین بھی اپنا درد دل بیان کرنے کیلئے صرف اپنی ماں کو ہی آواز دیتا نظر آتا ہے۔مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی"
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایثار و محبت اور خلوص و شفقت جس قدر ماں سے نصیب ہوتا ہے کسی اور سے نہیں مل سکتا۔ چنانچہ یہی دعا کرنا چاہیے کہ اللہ پاک سب کی ماوں کو سلامت رکھے اور کسی کو اس نعمت سے محروم نہ کرے۔ یہ دنیا فانی ہے اور حادثات و واقعات سے پر ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے " ہر زندہ چیز نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے ضرور واپس جانا ہے۔ کسی کو دوام نہیں۔ جلد یا بدیر سب نے اپنے خالق کے پاس جانا ہوتا ہے۔ مگر ماں کی جدائی بہت پرملال ہوتی ہے اور اس نقصان کا کسی طور ازالہ نہیں ہوسکتا۔یکم فروری 2022 کو ہمیں بھی یہ جانکاہ صدمہ برداشت کرنا پڑا جب ہماری انتہائی شفیق ماں سعیدہ خان اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔ لوگ انکی آسان موت اور پرسکون چہرے کی نورانیت سے بہت متاثر ہوئے۔ انکے حسن اخلاق، حسن کردار اور ایثار و ہمدردی کا تذکرہ کرتے پائے گئے۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا
نشان مرد مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم برلب اوست
الحمد للّٰہ یہ نظارہ ہمارے سمیت تجہیز و تکفین میں شامل سب افراد نے کیا۔ کم عمری میں ہی ہم سب بہن بھائیوں کے سر سے والد محترم بی۔ اے۔ خان کا سایہ اٹھ گیا تھا جو انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز میں سپورٹس رپورٹر تھے اور رضائے الٰہی سے ادھیڑ عمری میں ہی رحلت فرما گئے تھے۔ لیکن ہماری ماں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ بڑی ہمت و صبر سے بیوگی کاٹی اور انتہائی توجہ، محنت، ایثار اور جانفشانی سے بالکل کم وسائل میں ہماری پرورش فرمائی۔ ہمارے ماموں اپنی مرحومہ بہن کے یتیم بچوں کا ہر طرح سے پورا خیال رکھتے ہیں مگر ہماری ماں ہمیشہ اپنے حلق سے بھی نوالہ نکال کر ہمارا پیٹ بھرتی رہی۔ ہمیں کسی چیز کی کمی محسوس ہونے نہ دی۔ ماشائ اللہ خود صوم و صلوٰ? کی پابند تھی۔ اولاد کو بھی نیک سیرت بنانے اور ہمیشہ نیکی کے راستے پر چلانے کی پوری کوشش کی۔ کم آمدنی کے باوجود اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت کرنے میں مگن رہی۔ ہم پر ماں کی ممتا کے ساتھ ساتھ پدرانہ شفقت بھی پوری طرح نچھاور کرتی رہی۔ اولاد کے علاوہ اپنے پوتے عبدالرحمن پوتی ایمان کامران اور نواسی رمزہ سے بھی حد درجہ پیار کرتی تھیں۔ خود پر انہیں ترجیح دیتی اور انکی معصومانہ خواہشات ہمیشہ فوراً پوری کردیتیں۔ جس سے تمام گھر والے ان سے بیحد پیار کرتے اور انکے ادب کا پورا پورا خیال رکھتے۔ والدہ مرحومہ نے پوری زندگی یاد الہی، محنت و کوشش اور حسن سلوک میں گزار دی۔ بڑی رحمدل، خوش اخلاق، مہمان نواز اور خوش اطوار تھیں۔ دوسروں کی تکلیف و ضرورت پر بےچین ہو جایا کرتی اور انہیں پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتی۔ گھر آئے لوگوں اور مہمانوں کی خوب تواضع کرتی۔ ہماری ماں کی ہستی ہمارے لئے سراپا ایثار و محبت، پریشانی میں مونس و ہمدرد اور ہر دکھ کا مداوا تھی۔ ان کا گھنا سایہئرحمت و شفقت جب سے ہمارے سروں سے اٹھا ہے ہماری دنیا ویران ہو گئی ہے۔ ہمیں انکی کمی بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے کیونکہ اب اس بھری کائنات میں ان جیسا کوئی نہیں۔ مگر تقدیر کے آگے کسی کا زور نہیں چلتا اور نہ ہی کوئی آہ و فریاد کسی کام آ سکتی ہے۔ ماں کے ساتھ گزرا ہوا سنہرا وقت اور انکی شفقت و محبت سے لبریز باتیں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ اللہ تعالیٰ سے فقط عاجزانہ دعا ہے کہ وہ ہماری والدہ مرحومہ سعیدہ خان کی مغفرت فرمائے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت کرے۔ جس خلوص، محنت، رحمت و محبت سے انہوں نے ہم سب یتیم بہنوں اور بھائیوں کی پرورش فرمائی اس پر انہیں اجر عظیم عطا کرے اور انکے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔ آمین ہم سب کی تو بس یہی خواہش ہے کہ
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے