میرا دیس....زین الااسلام
25 کروڑ کی آبادی کے ملک پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث پرائیویٹ گاڑیوں کی کھپت میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ زرعی ملک میں ٹریکٹروں کی مانگ بڑھ رہی ہے، اور مال برداری، تعمیراتی صنعت کے فروغ اور نقل و حمل کے لیے ٹرکوں، منی ٹرکوں، بسوں اور لائٹ کمرشل وہیکلز کی بھی وسیع مارکیٹ ہے۔گاڑیوں کی اس بڑھتی مانگ کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کی کار سازی کی مقامی صنعت کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ تاہم گاڑیوں کی مقامی پیداوار سے وابستہ لگ بھگ 13 بڑی کمپنیاں اس بات سے پریشان ہیں کہ حکومت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے نرم پالیسیاں لا رہی ہے، جس سے مقامی صنعت کے زوال کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔گاڑیوں کی مقامی صنعت سے روزگار کے براہ راست 25 لاکھ اور اس وسیع نیٹ ورک سے وابستہ افراد کی تعداد 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ جو پرزوں کی تیاری، ڈسٹریبیوشن اور خرید و فروخت سے وابستہ ہیں۔ یوں یہ صنعت ملکی معیشت میں اربوں روپے کا حصہ ڈال رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گاڑیوں کی مقامی صنعت سالانہ 5 لاکھ گاڑیوں کی تیاری کی صلاحیت رکھتی ہے، جس میں ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے، تاہم رواں مالی سال میں یہ صلاحیت کم ہو کر ایک لاکھ یونٹ رہ گئی ہے۔ مالی سال 2022 میں مقامی پرزوں کی فروخت کا حجم 250 ارب روپے تھا جبکہ صنعت نے مالی سال 2022 میں 400 ارب روپے کا حصہ ڈالا ہے۔ یہ صنعت ملک کے درآمدی بل کے کل 45 ارب ڈالر کے حجم میں مقامی صنعت نے صرف 577 ملین ڈالر یعنی ایک اعشاریہ 1 فیصد کاحصہ ڈالا۔گاڑٰیوں کی اس صنعت سے وابستہ ذرائع کہتے ہیں کہ پاکستان میں مقامی سطح پر 13 بڑی کمپنیاں گاڑیاں تیار کر رہی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود حکومت بڑے پیمانے پر گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دیتی ہے۔ وہ بھی ایسی پالیسیوں کے تحت جس سے گاڑیوں کی مقامی صنعت کو نقصان ہو رہا ہے۔
پاکستان کی مقامی گاڑیوں کی منڈی کار سازی کرنے والے 49 ممالک میں سے 34 ویں نمبر پر ہے۔ اور یہ ان 16 ممالک میں شامل ہے جو کاروں، لائٹ کمرشل وہیکلز، ٹرکوں، بسوں اور ٹریکٹروں کے مکمل یونٹ تیار کرتی ہے۔اس صنعت نے چیلنجز کے باوجود 60 فیصد سے زائد صنعتی امور کو مقامی سطح پر لایا ہے، اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق مصںوعات اور پرزے مقامی سطح پر تیار کیے جا رہے ہیں۔
صنعت پر ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کا بھاری بوجھ ڈالا گیا ہے۔ جہاں گاڑیوں کی قیمت فروخت انتہائی درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔ جبکہ صارفین کی بڑی تعداد اس بات سے ناواقف ہے کہ گاڑی کی قیمت فروخت میں بعض اوقات آدھی سے بھی زائد قیمت ٹیکسوں کی ہوتی ہے۔ یعنی گاڑی پر اس کی اصل قیمت کے برابر ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔مقامی صنعت کو استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے گہرا نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ اس کے لیے زیادہ تر رقوم غیر قانونی ذرائع سے منتقل کی جاتی ہے جس سے ملکی معیشت کو بھی گہرا نقصان پہنچ رہا ہے۔رواں مالی سال 2023-24 کے پہلے 8 ماہ میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے مقامی گاڑیوں کی صنعت کو 45 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ ابتدائی طور پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد اوورسیز پاکستانیوں کے لیے میسر تھی تاہم بعد ازاں کرپشن اور غیر قانونی سرگرمیوں کا دروازہ کھل گیا اور یہ صنعت پھلتی پھولتی رہی جبکہ مقامی صنعت بدستور زوال کا شکار ہے۔
ملک میں گاڑیوں کی مقامی صنعت کی ترقی کے لیے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی پالیسیوں کو سخت کرنے کی ضرورت ہے، جس کے تحت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کا طریقہ کار سخت سے سخت تر کیا جانا چاہئے، تا کہ مقامی وسائل کا استعمال کیا جا سکے۔ماہرین کہتے ہیں کہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں ایسی پالیسیاں متعارف کرائی جائیں جس سے گاڑیوں کی مقامی صنعت کو فروغ ملے، درآمدی گاڑیوں بالخصوص پرانی گاڑیوں کی درآمد کی حوصلہ شکنی ہو تا کہ صارفین کو پائیدار اور ماحول دوست گاڑیاں کم قیمت پر میسر آ سکیں۔ وزیر اعظم، وزیر خزانہ ، وزارت تجارت، وزارت منصوبہ بندی اور ایس آئی ایف سی اعداد و شمار کا جائزہ لے کر بجٹ میں مقامی گاڑیوں کی صنعت کی جانب سے دی گئی ان تجاویز کا جائزہ لیں۔استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکسوں کی چھوٹ اور آسان ڈیوٹی پالیسی ختم کی جانی چاہئے، حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقوم کی منتقلی کی حوصلہ شکنی، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ جو ملک خود گاڑیاں تیار کر رہا ہو وہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے۔آٹو انڈسٹری کے امور سے باخبر ماہرین کہتے ہیں کہ مقامی سطح پر کسی بھی گاڑی کے منصوبے کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ اور ڈیزائن سے لے کر پہلا حتمی یونٹ تیار کرنے کے عمل میں 4 برس کا عرصہ لگتا ہے جس پر بڑی لاگت آتی ہے تاہم حکومت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے کر مقامی صنعت کی تمام محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔ یوں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ مقامی صنعت کو فروغ دینے، صارفین کو کم قیمت پر گاڑیوں کی فراہمی اور درآمدی بل میں کمی کے لیے گاڑیوں کی مقامی صنعت پر حکومتی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ صنعت مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے، حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔پاکستان کی گاڑیوں کی مقامی صنعت حکومتی منفی پالیسیوں کی زد میں
25 کروڑ کی آبادی کے ملک پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث پرائیویٹ گاڑیوں کی کھپت میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ زرعی ملک میں ٹریکٹروں کی مانگ بڑھ رہی ہے، اور مال برداری، تعمیراتی صنعت کے فروغ اور نقل و حمل کے لیے ٹرکوں، منی ٹرکوں، بسوں اور لائٹ کمرشل وہیکلز کی بھی وسیع مارکیٹ ہے۔گاڑیوں کی اس بڑھتی مانگ کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کی کار سازی کی مقامی صنعت کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ تاہم گاڑیوں کی مقامی پیداوار سے وابستہ لگ بھگ 13 بڑی کمپنیاں اس بات سے پریشان ہیں کہ حکومت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے نرم پالیسیاں لا رہی ہے، جس سے مقامی صنعت کے زوال کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔گاڑیوں کی مقامی صنعت سے روزگار کے براہ راست 25 لاکھ اور اس وسیع نیٹ ورک سے وابستہ افراد کی تعداد 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ جو پرزوں کی تیاری، ڈسٹریبیوشن اور خرید و فروخت سے وابستہ ہیں۔ یوں یہ صنعت ملکی معیشت میں اربوں روپے کا حصہ ڈال رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گاڑیوں کی مقامی صنعت سالانہ 5 لاکھ گاڑیوں کی تیاری کی صلاحیت رکھتی ہے، جس میں ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے، تاہم رواں مالی سال میں یہ صلاحیت کم ہو کر ایک لاکھ یونٹ رہ گئی ہے۔ مالی سال 2022 میں مقامی پرزوں کی فروخت کا حجم 250 ارب روپے تھا جبکہ صنعت نے مالی سال 2022 میں 400 ارب روپے کا حصہ ڈالا ہے۔ یہ صنعت ملک کے درآمدی بل کے کل 45 ارب ڈالر کے حجم میں مقامی صنعت نے صرف 577 ملین ڈالر یعنی ایک اعشاریہ 1 فیصد کاحصہ ڈالا۔گاڑٰیوں کی اس صنعت سے وابستہ ذرائع کہتے ہیں کہ پاکستان میں مقامی سطح پر 13 بڑی کمپنیاں گاڑیاں تیار کر رہی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود حکومت بڑے پیمانے پر گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دیتی ہے۔ وہ بھی ایسی پالیسیوں کے تحت جس سے گاڑیوں کی مقامی صنعت کو نقصان ہو رہا ہے۔
پاکستان کی مقامی گاڑیوں کی منڈی کار سازی کرنے والے 49 ممالک میں سے 34 ویں نمبر پر ہے۔ اور یہ ان 16 ممالک میں شامل ہے جو کاروں، لائٹ کمرشل وہیکلز، ٹرکوں، بسوں اور ٹریکٹروں کے مکمل یونٹ تیار کرتی ہے۔اس صنعت نے چیلنجز کے باوجود 60 فیصد سے زائد صنعتی امور کو مقامی سطح پر لایا ہے، اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق مصںوعات اور پرزے مقامی سطح پر تیار کیے جا رہے ہیں۔
صنعت پر ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کا بھاری بوجھ ڈالا گیا ہے۔ جہاں گاڑیوں کی قیمت فروخت انتہائی درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔ جبکہ صارفین کی بڑی تعداد اس بات سے ناواقف ہے کہ گاڑی کی قیمت فروخت میں بعض اوقات آدھی سے بھی زائد قیمت ٹیکسوں کی ہوتی ہے۔ یعنی گاڑی پر اس کی اصل قیمت کے برابر ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔مقامی صنعت کو استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے گہرا نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ اس کے لیے زیادہ تر رقوم غیر قانونی ذرائع سے منتقل کی جاتی ہے جس سے ملکی معیشت کو بھی گہرا نقصان پہنچ رہا ہے۔رواں مالی سال 2023-24 کے پہلے 8 ماہ میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے مقامی گاڑیوں کی صنعت کو 45 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ ابتدائی طور پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد اوورسیز پاکستانیوں کے لیے میسر تھی تاہم بعد ازاں کرپشن اور غیر قانونی سرگرمیوں کا دروازہ کھل گیا اور یہ صنعت پھلتی پھولتی رہی جبکہ مقامی صنعت بدستور زوال کا شکار ہے۔ملک میں گاڑیوں کی مقامی صنعت کی ترقی کے لیے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی پالیسیوں کو سخت کرنے کی ضرورت ہے، جس کے تحت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کا طریقہ کار سخت سے سخت تر کیا جانا چاہئے، تا کہ مقامی وسائل کا استعمال کیا جا سکے۔ماہرین کہتے ہیں کہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں ایسی پالیسیاں متعارف کرائی جائیں جس سے گاڑیوں کی مقامی صنعت کو فروغ ملے، درآمدی گاڑیوں بالخصوص پرانی گاڑیوں کی درآمد کی حوصلہ شکنی ہو تا کہ صارفین کو پائیدار اور ماحول دوست گاڑیاں کم قیمت پر میسر آ سکیں۔ وزیر اعظم، وزیر خزانہ ، وزارت تجارت، وزارت منصوبہ بندی اور ایس آئی ایف سی اعداد و شمار کا جائزہ لے کر بجٹ میں مقامی گاڑیوں کی صنعت کی جانب سے دی گئی ان تجاویز کا جائزہ لیں۔استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکسوں کی چھوٹ اور آسان ڈیوٹی پالیسی ختم کی جانی چاہئے، حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقوم کی منتقلی کی حوصلہ شکنی، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ جو ملک خود گاڑیاں تیار کر رہا ہو وہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے۔آٹو انڈسٹری کے امور سے باخبر ماہرین کہتے ہیں کہ مقامی سطح پر کسی بھی گاڑی کے منصوبے کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ اور ڈیزائن سے لے کر پہلا حتمی یونٹ تیار کرنے کے عمل میں 4 برس کا عرصہ لگتا ہے جس پر بڑی لاگت آتی ہے تاہم حکومت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے کر مقامی صنعت کی تمام محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔
یوں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ مقامی صنعت کو فروغ دینے، صارفین کو کم قیمت پر گاڑیوں کی فراہمی اور درآمدی بل میں کمی کے لیے گاڑیوں کی مقامی صنعت پر حکومتی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ صنعت مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے، حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔