آزاد کشمیر کے ہنگامے کئی حیرت ناک کہانیاں چھوڑ گئے۔ اب امن ہو گیا۔ ان ہنگاموں میں فائرنگ ہوئی لیکن یہ فائرنگ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نہیں کی، قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کی گئی۔ پولیس نے مظاہرین سے مار پیٹ نہیں کی بلکہ پولیس والوں کو مارا گیا، انھیں گولی کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی وردیاں پھاڑ کر پہاڑوں پر سے نیچے کھائی میں دھکیل دیا گیا۔ آزاد کشمیر کے کچھ لوگوں نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والے، فوج اور پولیس پر حملہ کرنے والے، ان کی گاڑیوں کو نذر آتش کرنے والے لوگ آزاد کشمیر کے نہیں تھے۔ یہ مغرب کے کچھ علاقوں سے آئے تھے۔ شمال مغرب سے اور شمال سے اور آئے نہیں تھے، بلوائے گئے تھے۔ انھیں کیوں بلوایا گیا تھا؟ اس کا جواب ’ایکشن کمیٹی‘ ہی دے سکتی ہے جو اس سارے ہنگامے کی مصنف اور ہدایت کار تھی یا ہے۔
ہاں کچھ کشمیری بھی تھے، جے کے ایل ایف، خود مختار کشمیر والے۔ ان کے بلوائیوں نے اور شمال مغربی اور مغرب سے بلائے گئے بلوائیوں نے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے، قومی پرچم اتار کر پامال کیا۔ پاکستان اور فوج کے لیے گالیاں کورس کی شکل میں گائیں۔ اس سانحے کی باریک تفصیل بھی ’ایکشن کمیٹی‘ دے سکتی ہے۔
حکومت نے مذاکرات کا اعلان کیا۔ ایکشن کمیٹی نے کہا، مذاکرات نہیں ہوں گے، پہلے ہماری مانگیں پوری کرو۔ حکومت نے مانگیں پوری کر دیں، نوٹیفکیشن بھی کر دیا اور ایکشن کمیٹی نے اعلان کیا کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے بلکہ اب انقلاب لایا جائے گا۔ شمال مغرب اور مغرب سے انقلابیوں کے جتھے آزادی آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے مظفر آباد میں داخل ہو گئے۔ ساتھ ہی ایکشن کمیٹی نے اعلان کیا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان کا داخلہ شہروں میں بند کر دیا جائے۔ غنیمت ہے، ایکشن کمیٹی نے اسمبلی کالعدم قرار دینے کا اعلان نہیں کیا۔ بہرحال ، ’مکتی باہنی‘ کی تمام تر ذمہ داریاں اس ایکشن کمیٹی نے سنبھال لیں۔
حکومت اور ادارے جانتے تھے کہ ایکشن کمیٹی کے ارکان کا حدود اربعہ کیا ہے۔ ان کے رابطے مغرب، شمال مغرب کے علاوہ مشرق اور شمال مشرق سے بھی ہیں لیکن کسی نے کچھ نہیں کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کہ امیت شاہ (جو ممکنہ طور پر بھارت کا اگلا وزیر اعظم بھی ہو سکتا ہے کہ مودی نے اسی کو جانشین مقرر کیا ہے) کا دامن مراد پھولوں سے بھر گیا۔ ایکشن کمیٹی کے نام امیت شاہ کا ……’دھنہ وادی سندیسہ‘ بہرکیف ابھی تک نہیں آیا۔
٭٭٭
حکومت نے لاٹھی گولی کی سرکار کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور آزاد کشمیر میں بجلی سستی کر دی، تین روپے یونٹ، یعنی اب آزاد کشمیر والوں کا ماہانہ بل اتنا ہی آئے گا جتنا بڑھیا کوالٹی کے سگریٹ کی ایک ڈبیا خریدنے پر خرچ آتا ہے۔ آٹا بھی 50 روپے کلو ہو گیا۔
سستے آٹے کا فائدہ آزاد کشمیر سے ملحقہ پنجاب کے علاقوں کو بھی ہو گا۔ پہلے بھی کئی گنا زائد از ضرورت آٹا آزاد کشمیر جاتا تھا۔ 50 روپے کا خرید کردہ یہ آٹا ملحقہ علاقوں کو 75 ، 80 روپے کلو میں دیا جائے گا۔ چلیے، اس بہانے پنجاب کی سرحدی پٹی والوں کو بھی عام ریٹ سے پھر بھی سستا آٹا مل جایا کرے گا۔
آزاد کشمیر کو تقریباً مفت بجلی کی فراہمی کا تاوان ملک کے تین صوبوں یعنی پنجاب سندھ اور بلوچستان کو ادا کرنا ہو گا۔ پختونخوا کو اس لیے نہیں کہ وہاں گنڈاپور کی حکومت نے پہلے ہی بجلی مفت کرنے کا اعلان کر رکھا ہے، اس صورت کہ بجلی چوری کو جائز قرار دے دیا ہے۔ کچھ دن پہلے گنڈاپور نے ’عام معافی‘ کا ذکر کیا تھا، دراصل وہ ’عام چوری‘ کو قانونی قرار دینے کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ بجلی چوری کو یہ کہہ کر قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے کہ نہ صرف ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو گی بلکہ جو بھی ان لوگوں کو بجلی چور کہے گا، گردن زدنی ہو گا ۔ چھاپہ مار پارٹیوں کو بہرحال ابھی تک یہ ہدایت نہیں کی گئی ہے کہ وہ ان ناہنجاروں کے گھروں پر چھاپہ ماریں اور گرفتار کریں جنھوں نے ابھی تک بجلی کے میٹر لگوا رکھے ہیں۔
تین صوبوں میں بجلی کا نرخ 60 سے 70 روپے فی یونٹ ہے۔ اب آزاد کشمیر میں ’سیز فائر‘ کے بعد یہ نرخ 75 سے 80 بلکہ 85 سے 90 روپے بھی ہو گئے ہیں۔ یہ ہوتی ہے شہباز سپیڈ!
٭٭٭
قومی اسمبلی میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب فیلڈ مارشل کے پوتا صاحب نے آئین کی بالادستی کی بات کی۔ دلچسپ صورتحال اس وقت دلچسپ ترین ہو گئی جب فیلڈ مارشل کے پوتا صاحب نے مطالبہ کیا کہ آئین توڑنے والوں کو پھانسی دی جائے۔ اس پر خواجہ آصف کی رگ شرارت پھڑکی اور انھوں نے پوتا صاحب سے استفسار کیا کہ شروعات فیلڈ مارشل کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی دینے سے کیوں نہ کی جائے۔ پوتا صاحب اس پر مشتعل ہوئے اور اول فول فرمانے لگے۔ ایوان کافی دیر تک ان نعروں سے گونجتا رہا جو تالیوں کی تال پر لگائے جاتے رہے۔ اس امر کی تحقیق نہیں ہو سکی کہ پوتا صاحب ان نعروں سے بدمزا ہوئے یا خوش مزا۔
٭٭٭
اسلام آباد کے بعض نبض شناس (قبض شناس نہ پڑھا جائے) اخبار نویس ایک سازشی تھیوری لے کر آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پوتا صاحب یہ کہہ کر کہ آرٹیکل توڑنے والوں کو پھانسی دی جائے، دراصل قائد انقلاب کو پھانسی دلوانا چاہتے ہیں کیونکہ انھوں نے تحریک عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اسمبلی توڑ کر آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی تھی۔ ان کی پارٹی میں قیادت کی رسہ کشی چل رہی ہے اور پوتا صاحب قائد حزب اختلاف ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ پارٹی کی قیادت بھی انھی کو مل جائے۔ واللہ علم۔ معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا جا سکتا ہے۔
٭٭٭
قائد انقلاب کے ایک دیرینہ ساتھی فواد چودھری نے انکشاف کیا ہے کہ قائد انقلاب کا جیل سے باہر آنا عوام کے دکھوں کا مداوا ہے۔ ان کی رائے قابل احترام لیکن عوام کی رائے مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قائد انقلاب جب سے اڈیالہ نشین ہوئے ہیں، مہنگائی کی شرح میں کمی ہونا شروع ہو گئی ہے اور خاص طور سے پنجاب میں تو یہ شرح آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے۔ ترقیاتی کام بحال ہو گئے ہیں اور محض لنگر خانوں پر گزارا نہیں رہا۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلاب زر بھی بڑھ گئی ہیں۔ روز روز کے جلسے جلوسوں سے نجات مل گئی ہے۔ سٹاک مارکیٹ بہتر سے بہتر ہو رہی ہے روزگار کے مواقع نکلنے شروع ہو گئے ہیں۔ دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ فواد چودھری مناسب سمجھیں تو غور فرما لیں۔ قائد انقلاب کا اندر رہنا عوامی مفاد میں ہے یا باہر آنا؟