اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ وقائع نگار) سپریم کورٹ نے نیب (دوسرا ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022 ء کے ذریعے پارلیمنٹ کی جانب سے ترامیم کو غیر آئینی قرار دینے سے متعلق پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین، عمران خان کی درخواست پر جاری فیصلے کیخلاف دائر کی گئی وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران درخواست گزار عمران خان کی اپیلوں میں ذاتی طور پر پیش ہونے سے متعلق دائر درخواست منظور کرلی ہے اور اٹارنی جنرل اور جیل حکام کو درخواست گزار کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کو یقینی بنانے کیلئے انتظامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت 16مئی تک ملتوی کردی ہے۔ عدالت نے تفصیلات طلب کی ہیں کہ نیب پر کل سالانہ خرچ کتنا آتا ہے؟ اور یہ کتنی سالانہ ریکوری کرتی ہے؟ کل کتنے سیاستدان بے قصور ثابت ہوئے ہیں اور کتنے جیل میں گئے ہیں؟ کس سیاسی جماعت کے کتنے سیاست دان قید ہوئے تھے؟۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے ہیں جب ملک میں مارشل لاء لگتا ہے تو نیب آرڈیننس دو منٹوں میں ہی ٹھک کر کے بن جاتا ہے، اور اس پر کوئی سوال بھی نہیں اٹھایا جاتا ہے لیکن جمہوری نظام میں آکر اگر کوئی کچھ کر دے تو وہ بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ملک میں جتنی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نیب قانون کی وجہ سے ہوئی ہے، وہ ہماری بد قسمتی ہے، نیب کرپشن کی روک تھام کرنے میں ناکام رہا ہے اور پولیٹیکل انجینئیرنگ میں ملوث رہا ہے، فاضل جج نے سوال اٹھایا کہ اگر کوئی بے قصور ثابت ہو جائے؟ تو کیا نیب کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے؟ نیب کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا ہے کہ نیب نے ایک شخص کو تین سال جیل میں رکھا اور پھر کہا گیاکہ وہ بے قصور ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب روسٹرم پر آئے اور موقف اختیار کیا کہ ان اپیلوں میں جو دلائل وفاقی حکومت کے وکیل پیش کریں گے، ہم انہی کو اپنائیں گے۔ جبکہ ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے نے روسٹرم پر آکر موقف پیش کیا کہ کے پی کی حکومت ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے سابق فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت پارلیمنٹ کی جانب سے نیب قانون میں کی گئی ترامیم کی حمایت کرتی ہے جبکہ حکومت پنجاب کے لا افسر نے بھی موقف اختیار کیا کہ ہماری حکومت بھی اس مقدمہ میں وفاقی حکومت کے وکیل کے موقف کی تائید کرتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان نے ان اپیلوں میں ذاتی طور پر پیش ہونے سے متعلق درخواست دائر کر رکھی ہے، اگر وہ ذاتی طور پر پیش ہونا چاہیں تو اس کے لئے اقدامات کیے جانے چاہئیں جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ درخواست گزار، عمران خان اگر وکیل کے ذریعے اس کیس میں اپنی نمائندگی چاہتے ہیں تو جیل حکام اقدامات کردیں، انہوں نے کہاکہ ہم اس مقدمہ سے متعلق کارروائی کو صرف قانونی نکات تک ہی محدود رکھیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا عمران خان مرکزی کیس کے فریق ہیں، اس لئے ان کا موقف سنا جانا چاہیے، انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ نیب کی پولیٹیکل انجینئرنگ میں ملوث ہونے سے متعلق ہے، اگر درخواست گزار عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں، ہم کیسے روک سکتے ہیں؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کسی بھی آرڈیننس کو جاری کرنے سے قبل حکومت نے اس کی وجوہات دینا ہوتی ہیں کہ آرڈیننس ان وجوہات کی بنا پرجاری کرنا ضروری ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اس کیس میںبریگیڈیئر اسد منیر کی خود کشی کا نوٹ ہی کافی ہے، یہ بنیادی حقوق کی بات ہے، سپریم کورٹ کا 11رکنی لارجر بینچ ایسی درخواستوں کی سماعت کرچکا ہے،مخدوم علی خان نے کہاکہ جب نیب ترامیم کے خلاف دائردرخواست کی سماعت کی گئی تھی اس وقت سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ2023 معطل تھا،جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ درخواست میں کوئی ایسی ترمیم چیلنج کی گئی ہے جو آئین کے خلاف ہو؟جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ نیب حکام بتائیں کہ پچھلے 10 سالوں میں کتنے سیاستدانوں کے خلاف مقدمات چلوائے گئے ہیں اوراس دوران کل کتنے سیاستدانوں کو قید کیا گیاہے ؟جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ نیب نے تین سال تک ایک شخص کو جیل میں ڈالے رکھا تھا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگوں کے ساتھ ظلم بھی بہت ہو رہا ہے، آپ نے مطمئن کرنا ہے کہ لوگوں پر اب تو ظلم نہیں ہو رہا ہے ،انہوںنے اٹارنی جنرل کو کہاکہ آپ نے یقینی بنانا ہے کہ درخواست گزار عمران خان کی پیشی کے موقع پر ویڈیو لنک بخوبی کام کرے،مخدوم علی خان نے کہاکہ عدالت کی آسانی کیلئے عمران خان سے کل تک تحریری معروضات بھی طلب کر سکتی ہے، جسٹس اطہر نے کہاکہ سپریم کورٹ نے کئی کیسز میں اصول طے کیا کہ فیڈریشن متاثرہ فریق نہیں ہو سکتی ہے ،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کوئی مرکزی کیس میں فریق ہے تو وہ متاثرہ ہوتا ہے، جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکہ پارلیمنٹ میں نیب ترامیم کی مخالفت کس نے کی تھی ؟چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ2023 کی شق پانچ پڑھیں، جس پرجسٹس اطہر نے کہاکہ اپیل کا حق ماضی سے دینے والی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق دو پڑھیں، چیف جسٹس نے کہاکہ اس شق سے متعلق اکثریت نہیں تھی، جسٹس اطہر نے کہاکہ کسٹم ایکٹ سے متعلق سپریم کورٹ کے تین فیصلے ہیں ،فیڈریشن متاثرہ فریق نہیں ہے کیونکہ اسکا ذاتی نقصان نہیں ہواہے ،، مخدوم علی خان نے کہاکہ فیڈریشن کو اپیل کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے ،اگر وفاقی حکومت کو اپنے قانون کا دفاع کا حق نہیں تو پھر یہ حق کسے حاصل ہوگا؟مرکزی درخواست گزار نے اپنے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا نقطہ نہیں اٹھایاتھا بلکہ اس نے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی بات کی تھی، چیف جسٹس نے کہاکہ اس کیس میں قانونی شقوں کا معاملہ ہے،اگر ہم خود کو دیگر مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے، دوران سماعت مخدوم علی خان نے جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ پڑھنا شروع کردیا ،جسٹس جمال خان نے کہاکہ کیا نیب ترامیم میں آئینی شق کی تشریح کا سوال تھا، مخدوم علی خان نے کہاکہ نیب ترامیم کو آئین کے تحت جانچنے کا سوال تھا، جسٹس اطہر نے کہاکہ نیب ترامیم کو لارجر بنچ کو سننا چاہیے تھا، ہائیکورٹوں میں بھی ترامیم چیلنج کی گئی تھیں، بے نظیر بھٹو کیس میں سپریم کورٹ یہ اصول اصول طے کر رکھا ہے، انہوںنے کہا کہ جب کوئی درخواست ہائیکورٹ میں زیر التوا ہوتو وہ آرٹیکل 184کی شق تین کے تحت قابل ہی نہیں ہو سکتی ہے ،ہو سکتا ہے اب درخواست گزار عمران خان پورے نیب قانون کو کالعدم کرنے کا کہیں، کیونکہ وہ خود بھی نیب کے متاثرہ ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ جب ایسی کوئی درخواست آئی تو ہم دیکھ لیں گے،جسٹس اطہر نے کہاکہ یہاں ہمارے پاس 57 ہزار کیس زیر التوا ہیں،ہم اس کیس پر وقت کیوں ضائع کریں ؟اس کیس میں بنیادی درخواست گزار کی نیک نیتی ثابت نہیں تھی، جسٹس منصور علی شاہ نے درست کہا تھا کہ کیس لانے والوں نے پارلیمنٹ میں اپنا کردارکیوں ادا نہیںکیا ہے ؟انہوںنے کہاکہ نیب ترامیم کا معاملہ ہائیکورٹ میں تھا ہم دیگر سائلین کا وقت اس کیس کو کیوں دیں؟پارلیمنٹ کی نیب قانون میں کی گئی ترامیم پی ٹی آئی دور کے آرڈیننس اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں کی گئی تھیں ،پارلیمنٹ کی ترامیم کا مقصد ان افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا تھا، جن پر نیب کے لگائے گئے الزامات غلط ثابت ہوئے تھے فاضل جج نے سوال اٹھایا کہ کیا نیب عدالتوں سے واپس مقدمات کسی اور عدالت میں چل سکتے ہیں؟ ترامیم کالعدم قرار دینے کی بڑی وجہ لکھی گئی کہ مقدمات ختم ہو جائیں گے، جسٹس اطہر نے کہاکہ وہ کچھ اور لوگ قانون سے ہی بالاتر ہوں گے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ مختلف جرائم میں پہلے پراسیکیوشن صوبے کرتے ہیں، اس کے بعد وفاق میں ایف آئی اے جیسے ادارے ہیں جو مالی معاملات اور بنکنگ جرائم دیکھتے ہیں،انہوںنے استفسار کیا کہ کیا نیب قانون اس تفریق کو ختم کر رہا ہے؟جسٹس اطہر نے کہاکہ یہ بہت اہم سوال ہے کیا نیب آرڈیننس صوبائی خودمختاری کیخلاف ہے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا نیب خود بھی جوابدہ ہے؟نیب کیوں کسی کو جواب دہ نہیں ہے؟ چیف جسٹس نے حکمنامہ لکھوایا کہ ا ٹارنی جنرل عمران خان کی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کو یقینی بنائیں، چیف جسٹس نے کہاکہ اب ٹیکنالوجی میں کیا مشکل ہے؟ زوم اور لیپ ٹاپ کے ذریعے ہر کام ہو جاتا ہے۔ جسٹس اطہر نے کہاکہ ویڈیو لنک کا بندوبست نہ ہوا تو سماعت ملتوی کریں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ سماعت ملتوی نہیں کریں گے، لیکن اس کے نتائج ہو سکتے ہیں، عدالت نے قرار دیا کہ آخری سماعت پر نوٹس جاری کئے تھے، فریق اول عمران احمد خان نیازی اس وقت اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید ہیں، ان کو عدالتی حکم نامے کی کاپی پیش کی گئی، ان کو وکیل کرنے کی اجازت دی گئی لیکن انہوں نے کہا کہ میں ذاتی حیثیت میں دلائل دینا چاہتا ہوں۔
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ نیب نے اپنے دس گواہ ترک کر دیئے۔ نیب سپیشل پراسکیوٹر امجد پرویز نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے 59 میں سے 39 گواہوں کے بیانات قلمبند کر لیے ہیں۔ مزید چھ سے آٹھ گواہوں کے بیانات ہونے ہیں، کیس اگر حتمی مرحلے میں ہو تو ضمانت کے بجائے ٹرائل کورٹ کو ڈائریکشن دی جاتی ہے کہ وہ کیس کا جلد فیصلہ کرے۔ نیب کے سپیشل پراسیکیوٹر امجد پرویز نے دلائل دیے وہ رقم حکومت پاکستان کو ملنی چاہیے تھی۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ شہزاد اکبر اگر کلیم کرتا ہے کہ وہ پیسہ لے کر آیا تو اس سے پوچھیں، شہزاد اکبر کا سارا کچھ بانی پی ٹی آئی کے کھاتے میں کیوں ڈال رہے ہیں؟۔ نیب کے گواہ نے تسلیم کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے دستخط کہیں موجود نہیں اور کوئی رقم بانی پی ٹی آئی یا بشریٰ بی بی کے اکاؤنٹ میں نہیں گئی، گواہ نے مانا کہ بانی پی ٹی آئی یا بشریٰ بی بی نے کوئی ذاتی فائدہ نہیں لیا، نیب نے کسی موقع پر اس گواہ کے بیان کو اپنے خلاف قرار نہیں دیا، نیب کے اپنے گواہ کے اس بیان کے بعد کیس میں کیا باقی رہ جاتا ہے۔