اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کی جانب سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کو خط لکھا گیا ہے۔ جسٹس بابر ستار نے خط میں لکھا کہ آڈیولیکس کیس میں مجھے پیغام دیا گیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔ جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ٹاپ آفیشل کا پیغام ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ، مجھے پیغام دیا گیا سرویلنس کے طریقہ کار کی سکروٹنی سے پیچھے ہٹ جاؤ۔ ذرائع کے مطابق جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ میں نے ایسے دھمکی آمیز حربے پرکوئی توجہ نہیں دی، مجھے نہیں لگا کہ ایسے پیغامات نے انصاف کی فراہمی میں نقصان کا خطرہ پیدا کیا ہو۔ ذرائع کے مطابق خط میں لکھا گیا ہے کہ آڈیولیکس کیس میں خفیہ اور تحقیقاتی اداروں کو عدالت نے نوٹس کیے، متعلقہ وزارتیں، ریگولیٹری باڈیز، آئی ایس آئی، آئی بی، ایف آئی اے کو نوٹس کیے، عدالت نے پی ٹی اے اور پیمرا کو بھی نوٹس کیے تھے۔ اٹارنی جنرل نے جسٹس بابر ستار کے خط کے حوالے سے وضاحت جاری کی ہے۔ ویڈیو بیان میں اٹارنی جنرل نے کہا ہے جسٹس بابر ستار کے خط کے حوالے سے وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں، ریاست کی کچھ حساس معلومات ہوتی ہیں، حساس معلومات کے حوالے سے اٹارنی جنرل یا ایڈووکیٹ جنرل رابطہ کرتے ہیں۔ حکومت نہ ہی حکومتی ادارہ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے نہ کرسکتا ہے، ایسا تاثر بنایا جا رہا ہے جیسے عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے ہیں، درخواست کی گئی تھی کہ سرویلنس سے متعلق معاملات پر بریفنگ ان کیمرا کی جائے، بدقسمتی سے تاثر کچھ ایسا لیا گیا کہ کیس کا فیصلہ کسی ایک رخ پر کردیا جائے، ایسا نہیں تھا۔ ایسی درخواست جو قانونی ہو اس میں اٹارنی جنرل یا ایڈووکیٹ جنرل پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ خط کے متن پر غور کیا جائے کہ کس چیز کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ کہا گیا ہے، کسی سکیورٹی افسر نے براہ راست رابطہ کیا ہے نہ کرسکتے ہیں۔ جج صاحب کے خط کی وجہ سے تاثر بن رہا ہے کہ عدلیہ میں مداخلت ہو رہی ہے۔ پاکستان کو 45 سال سے ایسے معاملات کا سامنا جہاں اداروں میں کمیونیکیشن ضروری ہوتی ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ جسٹس بابر ستار کے خط کے مندرجات سے تاثر دیا گیا ہے کہ ادارے مداخلت کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ کے ساتھ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں ہو رہی، چھ جج صاحبان کے خط کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اٹارنی جنرل نے ایک خط سے متعلق وضاحت پیش کی ہے۔ آج کل ٹی وی، اخبار میڈیا پر سوشل میڈیا ریگولیٹر کے حوالے سے کافی چرچا تھا، وہ ڈرافٹ منظوری کیلئے کابینہ میں آیا تھا۔ کچھ گائیڈ لائن مختص کی گئیں جو آئین پاکستان کے مطابق ہیں۔ پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنے کیلئے اتحاد کی ضرورت ہے۔ وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے کہا کہ اگر کسی کے پاس دوہری شہریت ہے تو اسے ڈیکلیئر کرنا ہوتا ہے۔ اس ایک معاملے پر قومی سلامتی پر سوالیہ نشان نہیں اٹھانا چاہئے اور قومی سلامتی کے معاملات کو خطوط کے ذریعے اجاگر نہیں کرنا چاہئے۔ عدالت کو صرف ان کیمرہ بریفنگ کا کہا گیا تھا ۔ وزیر قانون نے کہا کہ چھ ججز کے خط پر کمشن اس لئے بنایا گیا تھا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ آزاد عدلیہ ہی ملک کو آگے لیکر جاتی ہے مگر اس ملک کو انوکھے سکیورٹی چیلنج درپیش ہیں۔ سب کو اپنے اپنے دائرے میں ہی رہنا چاہئے۔ ایگزیکٹو کے اختیار میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان کو اس بحران سے نکلنے کیلئے اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کام کرنے کی توفیق اور طاقت عطا فرمائے ۔ وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے کہا کہ آپ خط تو لکھ دیتے ہیں، شادی بیاہ کی تقریبات میں لوگوں سے ملتے ہیں۔ اٹارنی جنرل ریاست کے نمائندے ہیں ان کی درخواست پر حقائق سے ہٹ کر خط لکھا گیا۔ قومی سلامتی کے معاملات کو اس طرح خطوط کے ذریعے اجاگر نہیں کرنا چاہئے۔ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام آباد سے وقائع نگار کے مطابق اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا ہے کہا اسلام آباد ہائی کورٹ میں مداخلت کا تاثر دیا جارہا ہے جس کی میں پر زور نفی کرتا ہوں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ساتھ کمیونی کیشن کی، ایک خط لکھا، اس خط کی روشنی میں یا اس خط کے مندرجات رپورٹ کچھ اس طرح سے ہوئے جس سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ جیسے کوئی مداخلت ہو رہی ہے۔ منصور اعوان نے کہا کہ اس معاملے کا پہلا پہلو یہ ہے کہ خط کے مندرجات میں جج صاحب نے خود فرمایا ہے کہ موصول ہونے والا پیغام کسی بھی طرح سے انصاف کے حصول میں مداخلت نہیں تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج صاحب کا ریفرنس اس خط میں اس سوشل میڈیا مہم کی طرف ہی تھا، بہرحال کیونکہ ایک بات ہے جو میڈیا پر نشر ہوچکی ہے، اس لیے میں بطور اثارنی جنرل، اس ملک کے بحیثیت پرنسپل لا افسر میں نے ضروری سمجھا کہ اس چیز کی وضاحت ابھی کردی جائے جو کہ ابھی ضروری بھی تھا کہ ایک ایسا تاثر بنتا جا رہا ہے کہ جوڈیشری یا ایگزیکٹو کے بیچ میں کوئی ایسی خرابی یا ایسے تعلقات خراب ہوچکے ہیں اور اس کی وجہ سے یہ بات آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ کمیونیکیشن کے حوالے سے ہمیشہ سے اٹارنی جنرل آفس یا صوبوں کا ایڈووکیٹ جنرل آفس ہی کمیونیکیٹ کرتا ہے، یہ درخواست کی گئی تھی کہ سرویلنس کے حوالے سے جو بھی بریفنگ ہو، وہ ان کیمرا کردی جائے تاکہ وہ پبلک ڈومین میں نہ جائے کہ ہماری ایجنسیز کی کیا صلاحیتیں ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان جیسا ملک جو ایسے ممالک سے گھرا ہوا ہے جہاں بڑی طاقتیں بھی ہیں اور ان سب کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات بھی نہیں ہیں، اس حوالے سے ضروری تھا کہ ایسی معلومات پبلک ڈومین میں نہ جائے، تو وہ ایک کمیونیکیشن ضرور ہوئی لیکن اس میں بد قسمتی یہ ہوئی کہ اس سے ایسا تاثر گیا کہ کیس کا فیصلہ کسی ایک رخ پر کردیا جائے، ایسا نہیں تھا۔