ڈ یسلیکسیا کے شکار بچے

May 15, 2024

عیشہ پیرزادہ

بچے کی تعلیم پر جتنی توجہ والدین دے سکتے ہیں اتنی کوئی توجہ نہیں دے سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ بچے کی نفسیات معلوم ہونا ہے۔ والدین اپنے بچے کی نفسیات اور رویوں سے سب سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں۔ ایسے میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچے کی پہلی استاد اس کی ماں ہی ہونی چاہیے۔یعنی سکول داخل کرنے سے پہلے ماں کو چاہیے کہ بچے کی ذہن سازی  کرے ، اس کے دماغ میں سکول کا تصور بیدار کرے۔ ساتھ ہی اسے گھر پر پینسل پکڑنا اور نقطوں پر لکھنا سیکھائے۔ پینسل کیسے پکڑنی ہے اس سلسلے میں رنگ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔بچہ رنگ بھرنے کی جستجو میں پنسل پکڑنا سیکھ جاتا ہے۔ اس کے بعد جب سکول جاتا ہے ماں کی سیکھائی باتیں اس کے کام آتی ہیں ۔ بچے کو ٹیوشن لگانے کی غلطی نہ کریں۔ ایک بچہ جس کے لیے سکول بالکل مختلف ہے، جہاں نہ والدین ہیں، نہ گھر جیسا ماحول۔ نئے چہرے اور نیا ماحول جہاں بچے نے تین سے چار گھنٹے گزارنے ہیں وہاں سے بچہ جب گھر واپس آتا ہے تو آپ نوٹ کریں گے کہ گھر کو دیکھ کر بچہ پرسکون ہوجاتا ہے۔ اسی بچے کو اگر آپ چند گھنٹوں بعد ٹیوشن بھیج دیں تو بچے کا دل پڑھائی سے بیزار ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
 بچے کو ابتدائی ٹیوشن ماں خود دے۔ اس کی الجھنوں کو سمجھے، اس کی بدلتے رویوں کو پرکھے اور پھر اس لحاظ سے اسے ڈیل کرے۔
بچے کی پڑھائی پر ایسے توجہ دیں کہ وہ پڑھنے کی مہارت کو مکمل فہم کے ساتھ حاصل کرسکیں اور انہیں مستقبل میں پڑھنے کی مہارتوں سے عدم واقفیت کی بنیاد پر نقصان نہ ہو۔
اکثر بچوں میں ہچکچاہٹ اور شرماہٹ کا عنصر غالب رہتا ہے۔ بچہ کلاس میں لکھنا پسند کرے گا لیکن وہی بچہ بات چیت میں سب بچوں سے پیچھے دکھائی دے گا۔ یہ بچے لرننگ میں کمزور کہلاتے ہیں۔ یعنی ان کے اندر کی شرماہٹ یا ہچکچاہٹ انہیں بولنے سے روکتی ہے۔جبکہ کئی بچے نہایت مدھم آواز میں سبق سناتے ہیں جسے سامنے والے کے لیے سننا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے بچوں کے لیے گھر پر اونچا سبق سنانے کی پریکٹس کروائیں۔بعض اوقات ایسے مسئلے سے دوچار بچوں کیساتھ سخت  رویہ اختیار کیا جاتا ہے لیکن اس دبائو سے بچے میں مزید منفی اثرات پیدا ہو سکتے ہیں۔جس کے بعد یہ مسئلہ بگڑ کر ڈیسلیکسیا  کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔عموماً ڈیسلیکسیا کا شکار بچوں کو استاد ’کند ذہن‘، ’نالائق‘ یا ’نکما‘ کا لبیل لگا دیتے ہیں، انھیں گھر اور سکول میں ڈانٹ پڑتی ہے، ان پر توجہ کم ہو جاتی ہے جس کا ایسے بچوں کی نفسیات اور شخصیت پر بہت بْرا اثر پڑتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ایسے بچے  کلاس میں پچھلی سیٹوں پر چھپ کر بیٹھ جاتے  ہیںاور گھر میں بھی خاموش، ڈرے اور سہمے ہوئے  رہتے ہیں۔ کسی کے ساتھ دوستی نہیں کرتے، کسی کے ساتھ زیادہ بات نہیں کرتے ۔ انھیں معاشرے کے ساتھ چلنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ جبکہ ماں باپ، اساتذہ کو اپنے دل کی بات نہیں کہہ سکتے۔ایسے بچوں کو بس پیار اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں پر پیار کی ڈوز کو زیادہ بڑھا دینا چاہیے۔ جبکہ پڑھائی کو دلچسپ انداز میں بدل دیں کہ بچے کے لیے وہ گیم بن جائے۔
سبق کو کہانی کی طرح بچے کے سامنے سنائیں۔سلیپ تھراپی بھی ایسے  بچوں کے لیے موزوں ثابت ہوتی ہے جس میں بچہ جب سونے کے لیے لیٹے تو اس کے بعد سونے سے دس منٹ پہلے اور سونے کے بعد دس منٹ  بچے سے آپ جو کچھ بھی کہیں گے اسے وہ سمجھے گا ۔یعنی بچے سے کوئی بری عادت چھڑوانی ہے کوئی نصیحت کرنی ہے وہ اس دورانیے میں کریں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچہ اس وقت ماں کی بات غور سے سنتا اور سمجھتا ہے۔ یہ تھراپی روز دہرائیں، چند ہی دنوں میں آپ بدلائو دیکھیں گے۔ اس کے علاوہ بچے کے ساتھ اونچی اونچی آواز میں سبق دہرائیں اور اسے  پیروی کرنے کو کہیں کہ وہ بھی بالکل اسی طرح بلند آواز میں سبق پڑھے، تمام عمل میں ایک بات یاد رکھنی ہے بچے کو ڈانٹنا نہیں ہے۔ کسی قسم کا بھی دبائو بچے کے اندر مثبت بدلائو کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے۔

مزیدخبریں