رانا اعجاز احمد خان ....
آج پاکستان کی سیاست میں بیانات کی حد تک بڑی گرما گرمی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ سیاسی مفاہمت ،رواداری اور برداشت کا جنازہ اُٹھ گیا ہے۔الزامات در الزامات اور جوابی الزامات کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلا ہے۔شہباز شریف کبھی نام لے کر اور کبھی بغیر نام لئے مرکز والوں پر کرپشن اور لوٹ مار سمیت بہت سے الزامات عائد کرتے ہیں۔علامہ اقبال کے یومِ ولادت پر خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ قومی دولت سوئس بنکوں میں چلی گئی ، عوام خود کشی پر مجبور ہیں۔ ساتھ انہوں نے کہا کرپٹ عناصر کو انجام تک نہ پہنچایا تو اقدار قربان کر دیں گے۔نواز شریف بھی آج کل حکومت کے خلاف کھل کر بات کرتے ہیں۔انہوں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ زرداری نے ہماری محنت پر پانی پھیر دیا ، وہ اب ہم سے حمائت کی توقع نہ رکھیں۔ میاں نواز شریف نے مزید کہا کہ حکومت مارشل لاء کی راہ ہموار کر رہی ہے۔آصف زرداری عموماً میاں نواز شریف کے بیانات پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھی بے شک اوٹ پٹنگ ہی سہی ، شریف برادران کو جواب ضرور دیتے ہیں ۔یہ فریضہ اکثر ڈاکٹر بابر اعوان اور سلمان تاثیر انجام دیتے ہیں ۔اعوان صاحب پنجاب حکومت کی حکمرانی کو مغلیہ طرز جمہوریت قرار دیتے ہیں تو سلمان تاثیر پنجاب حکومت کو کھڑک سنگھ کی حکومت سے تعبیر کرتے ہیں۔پاکستان میں عجب اندازِحکمرانی ہے ۔پیپلز پارٹی کسی صوبے میں اپوزیشن میں نہیں ۔ مرکز میں سب سے بڑی اپوزیشن نے پیپلز پارٹی کو آغوش میں لیا ہوا ہے۔پیپلز پارٹی کی پا لیسیوں کے باعث ملک بحرانوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے ۔اس پر اپوزیشن اور حکومت سے باہر کی دیگر پارٹیاں کسی مشترکہ لائحہ ِ عمل پر تیار نہیں ۔ایسانہ کر کے وہ دراصل حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کو جاری رکھنے میں مدد کر رہی ہیں۔ملک میں مہنگائی ایک سونامی برپا ہے ۔ہرطرف بد امنی ہے۔ بیروز گاری کا دور دورہ ہے۔بجلی اور گیس کی کمی کے باعث کاروبار تباہی کے دہانے پر ہیں۔ ملک کو امریکہ کے ہاتھو ں گروی رکھ دیا گیا ہے ۔ وہ جب چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے ڈرون حملوں سے تباہی مچا دیتاہے ۔ ان حملوں کے ردِ عمل میں ہی خود کش بمبار ملک کو بارود کا ڈھیر بنا دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک اور قوم بربادی کی طرف گامزن ہے اور اپوزیشن کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ان حالات میں جبکہ حکومت نے اپنی غیر مقبولیت کے تمام لوازمات پورے کر دیئے ہیں اپوزیشن کا میدانِ عمل میں نہ آنا عوام اور ملک دشمنی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر کی جماعتیں نہ بھی ساتھ دیں تو بھی مرکز میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی مسلم لیگ ن دیگر مسلم لیگی دھڑوں کو ساتھ ملا کر احتجاج کرے تو پوری قوم اس کے ساتھ ہو گی ۔ بعید نہیں کہ احتجاج میں جیالوں کی اکثریت بھی شریک ہو جائے ۔ بھر پور احتجاج کے سبب یقینا حکومت اپنی عوا م دشمن پالیسیوں پر نظرِ ثانی کر نے پر مجبور ہوجائے گی۔احتجاج کا مطلب حکومت الٹانا نہیں اسے راہِ راست پر لانا ہے۔حکومت کی پالیسیاں جاری رہیں اور اپوزیشن نے بھی اپنا کردار ادا نہ کیا تو موجودہ سلسلہ زیادہ دیر چلتا نظر نہیں آ رہا۔ مارشل لاء کے حوالے سے نواز شریف کی پیش گوئی پوری ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ آج پارلیمنٹ میں موجود کوئی بھی پارٹی اقتدار سے باہر نہیں۔جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹا گیا تو سب کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ شادیانے صرف جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف بجائے گی۔ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ پارٹیوں اندر بھی جمہوریت نہیں۔ حکومت میں آنے کی تیاری بھی کوئی پارٹی نہیں کرتی۔ اقتدار ملتا تو جو شعبہ جسے چاہا دیدیا۔اقتدار سے باہر رہتے ہوئے اقتدار میں آنے کی تیاری یہ ہے کہ تھنک ٹینکس بنائے جائیں۔جو حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں ۔اقتدار میں آنے سے قبل محکمانہ پالیسیاں تیا ر رکھیں۔
آج پاکستان کی سیاست میں بیانات کی حد تک بڑی گرما گرمی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ سیاسی مفاہمت ،رواداری اور برداشت کا جنازہ اُٹھ گیا ہے۔الزامات در الزامات اور جوابی الزامات کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلا ہے۔شہباز شریف کبھی نام لے کر اور کبھی بغیر نام لئے مرکز والوں پر کرپشن اور لوٹ مار سمیت بہت سے الزامات عائد کرتے ہیں۔علامہ اقبال کے یومِ ولادت پر خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ قومی دولت سوئس بنکوں میں چلی گئی ، عوام خود کشی پر مجبور ہیں۔ ساتھ انہوں نے کہا کرپٹ عناصر کو انجام تک نہ پہنچایا تو اقدار قربان کر دیں گے۔نواز شریف بھی آج کل حکومت کے خلاف کھل کر بات کرتے ہیں۔انہوں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ زرداری نے ہماری محنت پر پانی پھیر دیا ، وہ اب ہم سے حمائت کی توقع نہ رکھیں۔ میاں نواز شریف نے مزید کہا کہ حکومت مارشل لاء کی راہ ہموار کر رہی ہے۔آصف زرداری عموماً میاں نواز شریف کے بیانات پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھی بے شک اوٹ پٹنگ ہی سہی ، شریف برادران کو جواب ضرور دیتے ہیں ۔یہ فریضہ اکثر ڈاکٹر بابر اعوان اور سلمان تاثیر انجام دیتے ہیں ۔اعوان صاحب پنجاب حکومت کی حکمرانی کو مغلیہ طرز جمہوریت قرار دیتے ہیں تو سلمان تاثیر پنجاب حکومت کو کھڑک سنگھ کی حکومت سے تعبیر کرتے ہیں۔پاکستان میں عجب اندازِحکمرانی ہے ۔پیپلز پارٹی کسی صوبے میں اپوزیشن میں نہیں ۔ مرکز میں سب سے بڑی اپوزیشن نے پیپلز پارٹی کو آغوش میں لیا ہوا ہے۔پیپلز پارٹی کی پا لیسیوں کے باعث ملک بحرانوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے ۔اس پر اپوزیشن اور حکومت سے باہر کی دیگر پارٹیاں کسی مشترکہ لائحہ ِ عمل پر تیار نہیں ۔ایسانہ کر کے وہ دراصل حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کو جاری رکھنے میں مدد کر رہی ہیں۔ملک میں مہنگائی ایک سونامی برپا ہے ۔ہرطرف بد امنی ہے۔ بیروز گاری کا دور دورہ ہے۔بجلی اور گیس کی کمی کے باعث کاروبار تباہی کے دہانے پر ہیں۔ ملک کو امریکہ کے ہاتھو ں گروی رکھ دیا گیا ہے ۔ وہ جب چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے ڈرون حملوں سے تباہی مچا دیتاہے ۔ ان حملوں کے ردِ عمل میں ہی خود کش بمبار ملک کو بارود کا ڈھیر بنا دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک اور قوم بربادی کی طرف گامزن ہے اور اپوزیشن کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ان حالات میں جبکہ حکومت نے اپنی غیر مقبولیت کے تمام لوازمات پورے کر دیئے ہیں اپوزیشن کا میدانِ عمل میں نہ آنا عوام اور ملک دشمنی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر کی جماعتیں نہ بھی ساتھ دیں تو بھی مرکز میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی مسلم لیگ ن دیگر مسلم لیگی دھڑوں کو ساتھ ملا کر احتجاج کرے تو پوری قوم اس کے ساتھ ہو گی ۔ بعید نہیں کہ احتجاج میں جیالوں کی اکثریت بھی شریک ہو جائے ۔ بھر پور احتجاج کے سبب یقینا حکومت اپنی عوا م دشمن پالیسیوں پر نظرِ ثانی کر نے پر مجبور ہوجائے گی۔احتجاج کا مطلب حکومت الٹانا نہیں اسے راہِ راست پر لانا ہے۔حکومت کی پالیسیاں جاری رہیں اور اپوزیشن نے بھی اپنا کردار ادا نہ کیا تو موجودہ سلسلہ زیادہ دیر چلتا نظر نہیں آ رہا۔ مارشل لاء کے حوالے سے نواز شریف کی پیش گوئی پوری ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ آج پارلیمنٹ میں موجود کوئی بھی پارٹی اقتدار سے باہر نہیں۔جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹا گیا تو سب کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ شادیانے صرف جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف بجائے گی۔ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ پارٹیوں اندر بھی جمہوریت نہیں۔ حکومت میں آنے کی تیاری بھی کوئی پارٹی نہیں کرتی۔ اقتدار ملتا تو جو شعبہ جسے چاہا دیدیا۔اقتدار سے باہر رہتے ہوئے اقتدار میں آنے کی تیاری یہ ہے کہ تھنک ٹینکس بنائے جائیں۔جو حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں ۔اقتدار میں آنے سے قبل محکمانہ پالیسیاں تیا ر رکھیں۔