امریکہ میں علیحدگی پسند رجحانات، پس منظر، پیش منظر

امریکہ کی 20 ریاستوں نے (9 نومبر 2012ئ) مرکز سے علیحدگی اور اپنی جداگانہ سرکار سازی کی درخواست اوباما انتظامیہ کو دے دی۔ یہ درخواست کانگرس یا سینٹ کے اراکین کے بجائے عام شہریوں کی جانب سے ہے۔ درخواست پر 150 افراد کے دستخط ہیں۔ اگر 30 دن یعنی ایک ماہ میں متعلقہ ریاست کے 25 ہزار افراد مذکورہ درخواست پر توثیقی دستخط کر دیتے ہیں تو اوباما انتظامیہ آئینی دفعات کے تحت درخواست پر سنجیدگی سے غور اور بحث کرنے کی پابند ہے۔ مذکورہ درخواست میں بعض اہم امریکی ریاستیں مثلاً نیویارک، ٹیکساس، فلوریڈا، جارجیا، نیو جرسی وغیرہ شامل ہیں۔ درخواست دہندگان عوامی نمائندے نہیں عام شہری ہیں۔ جن کا موقف ہے کہ امریکہ وفاقی حکومت کی غفلت کے باعث مسلسل معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ یہ وفاقی حکومت کے اخراجات ملکی و غیر ملکی پالیسی کا نتیجہ ہے نیز وفاقی حکومت آئین اور شہری حقوق کی مسلسل پامالی کر رہی ہے۔ امریکہ کا مالیاتی بحران نیا نہیں اس کی جڑیں عراق، افغان جنگ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت اور پاکستان اور امت مسلمہ پر بے جا دباﺅ میں پوشیدہ ہیں۔ فی الحقیقت امریکی نیو ورلڈ آرڈر یعنی عالمی حکمرانی کی پالیسی ہی امریکی معیشت کے زوال کا سبب ہے۔ عالمی حکمرانی کےلئے مضبوط فوج اور وافر مال درکار ہے۔ جنگی اخراجات نیز CIA اور FBI کے عالمی نیٹ ورک نے امریکی مالیاتی معاملات کا توازن بگاڑ دیا ہے جس کے فوری اثرات امریکی عوام کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ تواتر سے قدرتی آفات کا شکار ہے۔ مالیاتی تنگی وفاقی اخراجات اور کرپشن مطلوبہ بحالی کے اقدامات میں رکاوٹ ہیں۔ مالیاتی بحران نے بے روزگاری، مہنگائی بڑھا دی۔ پبلک بنک دیوالیہ ہو گئے۔ انشورنس کمپنیاں دیوالیہ پن کے کنارے پر کھڑی ہیں۔ عوام میں بے چینی اور پریشانی بڑھ گئی جو بالاخر وفاقی حکومت اور عوام کے درمیان دوری کا سبب بن رہی ہے۔
امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر یہودی پالیسی اور منصوبہ بندی ہے جس سے امریکی شہریوں کا کوئی سروکار نہیں۔ امریکی مال اور وسائل پر یہودی قابض ہیں۔ امریکہ میں یہودی طاقت کے مراکز بنک، ڈالرز چھاپنے کی کھلی چھوٹ، ڈیموکریٹ اور ری پبلکن انتظامیہ، فوجی اسٹیبلشمنٹ، سی آئی اے اور ایف بی آئی وغیرہ ہیں یہودی کے لئے موجودہ معاشی ابتری عوامی پریشانی اور ریاستوں کے علیحدگی پسند رجحانات غیر متوقع نہیں۔ ڈالرز اور سیکورٹی بانڈز کاغذ کے ٹکڑے ہیں۔ چین عالمی دائمی کرنسی گولڈ (سونے) اور امریکہ میں زمین کی خریداری میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ اس صورتحال کے علاوہ یہودی نے امریکہ کے اندر پائی جانے والی عوامی بے چینی بداعتمادی اور مرکز گریز رجحانات کے سدباب کا بندوبست بھی کر رکھا ہے۔ عالمی یہودی کا اولین ہدف امریکی وسائل کے ذرائع ایشیا، بالخصوص جنوبی ایشیا یعنی پاک افغان (افپاک) خطے کے مالی و تجارتی وسائل میں اثر و رسوخ مضبوط و مستحکم کرتا ہے جس کےلئے پاکستان کے اندر نجکاری اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے کھولے گئے ہیں۔
امریکہ کے اندر مالیاتی بحران، علیحدگی پسند رجحانات اور عوامی بداعتمادی کے تدارک کےلئے چھوٹے بش نے دور آخر تک ساری منصوبہ بندی اور حکمت عملی بنا لی تھی۔ چھوٹے بش نے امریکی یہودی بنکوں کو دیوالیہ پن سے بچانے کےلئے 700 ارب ڈالرز کا بیل آﺅٹ پیکج دیا جس کی منظوری سینٹ نے دے دی مگر کانگرس میں مخالفت تھی لہٰذا اراکین کانگرس مثلاً کیلیفورنیا کے رکن برنارڈ شرمن نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے دباﺅ اور مارشل لاءکی دھمکی کارگر ہوئی۔ امریکی اخبارات (23 اکتوبر 2008ئ) میں خبر شائع ہوئی کہ امریکہ میں عوامی ہنگاموں کا خطرہ ہے جس کےلئے بعض مقامات پر فوج تعینات کر دی گئی ہے۔ چھوٹے بش نے 1807ءکے بغاوت ایکٹ میں ترمیم کرکے امریکی صدر کو وسیع ایمرجنسی اختیارات کا حامل بنا دیا ہے۔ یہ ترمیم حالات کی خرابی میں امریکی صدر کو مارشل لاءلگانے کا اختیار دیتی ہے جس کےلئے صرف صدارتی حکم اور اٹارنی جنرل کی توثیق درکار ہے۔ درایں صورت سینٹ اور کانگرس کے اراکین سے منظوری کی ضرورت نہیں۔ چھوٹے بش نے عراق اور افغانستان میں کام کرنے والے فوجی دستوں کو امریکہ کے اندر عوامی بغاوت اور ہنگاموں کو کنٹرول کرنے کےلئے کسی بھی حد تک جانے یعنی امریکی عوام پر گولی چلانے کےلئے ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہنگاموں کے دوران قیدی کیمپ (فیما) FEMA (فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی) کے حوالے ہو جائیں گے۔ جہاں نیو ورلڈ آرڈر کے مقتدر مخالفین اور عوام کےلئے علیحدہ علیحدہ جیل کیمپ بنائے گئے ہیں۔ سرخ کیمپ جیل میں امریکی اکابرین، لیڈر حکام اور افسران ہوں گے جبکہ نیکلی کیمپ جیل میں نیو ورلڈر آرڈر کے مخالف عوام کو رکھا جائے گا جن پر ریڈ انڈینز Red Indians جیسا ظلم و تشدد کیا جائے گا۔
امریکہ ایک قوم کا نام نہیں۔ یہ مختلف اقوام کا مجموعہ ہے جسے ناقدین بھیڑ بکریوں کا ریوڑ Nation of Sheeps کہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکی آئین سازی کے وقت آئین ساز کمیٹی نے آئین میں امریکی قوم (نیشن) کا لفظ استعمال کیا جس کی ہر ریاستی نمائندے نے مخالفت کی اور کہا کہ امریکہ ایک قوم نہیں بلکہ مختلف اقوام ہیں جن کو جداگانہ اور علیحدہ شناخت کو بحال رکھتے ہوئے ریاست ہائے متحدہ امریکہ USA کہا جائے اسی لئے امریکہ کا آئینی اور سرکاری نام USA ہے۔ USA کے قیام کے 2 محرکات اور ایک حکمت عملی تھی۔ امریکی یہودی اور برطانوی صلیبی نے فوجی قوت اور مالی خوشحالی کی بنیاد پر ہمسایہ ریاستوں کو USA میں شامل کیا۔ مضبوط امریکی وفاق کے مخالفین کو ریڈ انڈینز کی طرح عبرتناک تشدد کرکے ختم کر دیا۔ شاید امریکہ میں یہی دور دوبارہ آنے والا ہے۔ امریکہ 50 ریاستوں کا وفاقی اتحاد ہے۔ یہ ریاستیں کالے گورے، امیر غریب کی بنیاد پر منقسم ہیں۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن