پولیس کے سامنے بھتہ کی پرچیاں تقسیم کی جاتی ہیں:تاجر رہنما کراچی
پولیس بھتہ خوروں سے ایسے مل چکی ہے جیسے کتیا چوروںسے ملتی ہے، وہ چوروں کا کھوج لگنے دیتی ہے نہ کراچی پولیس بھتہ خورو ں کا،صاف ظاہر ہے بقدر جثہ وہ بھی حصہ وصول کریگی کیونکہ پرچیوں کی تقسیم جواپنی موجودگی میں کرواتی ہے، ویسے کراچی میں پولیس،رینجر اور حکومت تو نظر نہیں آتی،تاجربرادری کو چاہئے کہ وہ پھر بھتہ خوروں سے اتحاد کرلے، حکومت نے بھی تواتحاد کیا ہوا ہے کیونکہ اتحاد تو اپنا ”اُلو“ سیدھا کرنے کیلئے ہی ہوتا ہے اس میں کسی اچھے بُرے ،رنڈوے اور کنوارے کی تمیز کی ضرورت نہیں۔ کام ہونا چاہئے،وہ شیش ناگ سے دوستی کرکے بھی نکلوایاجاسکتا ہے۔
کراچی میں کافی مگر مچھ اور ” شیش ناگ“ ہیں، تاجر برادری کسی بھی سیاسی جماعت سے بھتہ دینے کا اتحاد کرسکتی ہے۔اسی کے بدلے وہ جماعت انہیں باقی ” ٹی ٹی“ کے زور پر بھتہ لینے والوںسے محفوظ رکھنے کیلئے سکیورٹی بھی دے سکتی ہے۔
کچھ بھتہ خور تو افریقہ کے جنگلوں میں ہی بسیرا کرتے ہیں ہر ماہ کے آخر میں اڑان بھر کر کراچی سے بھتہ لیکر رفوچکر ہوجاتے ہیں ۔روشنیوں کے شہر کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے کہ ہر طرف خونی سیلاب آچکا ہے،تاجر برادری بنگلہ دیش اور ملائیشیا منتقل ہوچکی ہے۔ماں جائی دھرتی کو چھوڑ کر جانے والوںکے دل تو زخمی زخمی ہونگے کراچی انہیں بابا بلھے شاہ کی زبان میں آواز دے رہا ہے۔ذرا تصرف سے عرض ہے....
دور دور اساتھوں گیﺅں
اصلاتے آ کے بہہ رہیوں
کیہہ کسر ”کراچی“ وساریا
سانُوں آمِل یار پیاریا
تم ہم سے دور جاکر کیوں چھپ کر بیٹھ گئے ہو؟ مجھ میں کیا خرابی ہے جو تم نے کراچی شہر کو بھلا دیا۔
٭....٭....٭....٭....٭
وزیراعلی اسلم رئیسانی پر بلوچستان اسمبلی کا اظہار اعتماد،پارٹی کا عدم اعتماد۔
رئیسانی کی کشتی بھنور میں ہچکولے کھا رہی ہے،پارٹی کہتی ہے حکومت کو جاتا کریں، ارکان اسمبلی کہتے ہیں
” ساڈا یار دلدار بڑا سوہنا“۔
بلوچی عوام عجیب مخمصے کا شکار ہیں وہ کس کے سامنے جاکر دُہائی دیں آئینی طورپر حکومت ختم ہوچکی ہے۔رئیسانی اقتدار کیساتھ ایسے چمٹے ہیں جیسے ” جونک“ چمٹتی ہے ،فرق اتنا ہی ہے یہ خزانے کو ”چوس“ رہے ہیں وہ خون چوستی ہے۔
سیاستدانوں کے ایسے ہی اقتدار سے چمٹے رہنے کے باعث سانحہ1971ءپیش آیا بد قسمتی سے آج بھی وہی گھوڑے میدانِ اقتدار میں ہیں،علیحدگی پسند اور بیرونی قوتیں تو ” ہلہ شیری“ کریںگی ،روٹی کپڑا اور مکان دینے والوں نے آ ج راتوں کا سکون بھی چھین لیا ہے،سیاستدان نہ جانے کب لوٹ مار کا بازار بند کرینگے اب الیکشن قریب ہیں پرانے کھلاڑی نئے جالو ں کے ساتھ ایک مرتبہ پھر میدان میں کودنے کیلئے لنگوٹ کَس رہے ہیں شاعر نے انہی کے بارے کہا تھا....
چونسٹھ برس سے ایک ہی نعرہ سنتے سنتے پک گئے کان
ہم کو بنالو حاکم دیں گے ،روٹی کپڑا اور مکان
ملتی نہیں باسی روٹی،مانگ رہے ہیں تازہ نان
سارے اس کو کھانے والے ایک بے چارہ پاکستان
عوام کوروٹی اور سکون کا سانس مل جائے تو پھر بھی حکمرانوں کو برداشت کرلیں لیکن روٹی کی جگہ ” سوٹی“ اور سکون کی جگہ ”خون“ ملتا ہے،بیچارے دُہائی دیں بھی کس کے سامنے کیونکہ یہاں تو ”آوے کا آوا “ہی بگڑا ہوا ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭
جنرل ایلن بھی کیلی کی زلفوں کے اسیر ، سپریم کمانڈر کی حیثیت سے نامزدگی مو¿خر۔
سُنا ہے ابھی مزید کچھ گُل کھلنے والے ہیں۔ ایلن اور پیٹر یاس تو ” مُہرے“ تھے،اب چھوٹے چھوٹے شتونگڑوں کے بارے بھی تحقیقات جاری ہے کیونکہ اگر آپ انہیں اتنی دور بھیجو گے تو پھر وہ ایسے ” چَن تو چڑھائیں “گے،ایک افغانیوں کی چھاپہ مار کارروائیو ں کا ڈر دوسرا بیوی بچوں سے دور،پھر معاشقے اور زلفوں کے اسیر بننا کوئی معیوب تو نہیں،امریکہ کی 20ریاستوں نے آزادی کی صدا لگادی ہے ۔
امید ہے باقی بھی حرارت سے پگھلنا شروع ہوجائیںگی ایک جگہ آگ لگی ہو اس کی گرمائش سے دائیں بائیں کچھ اثر تو ہوگا اس لئے امریکہ دوسرے ملکوں کو فتح کرنیکی بجائے واپس چلا جائے ورنہ اس کا روس سے بُرا حال ہوگا۔ایک تو افواج کی آپس میں ”آنکھ مچولی“ سے بدنامی ختم ہوجائیگی،دوسرا بکھرنے سے شاید کچھ دیر کیلئے وقت مل جائے لیکن ” پتیشے“ کی طرح پگھلے کا لازمی کیونکہ افغانستان سے کوئی بھی ملک زندہ سلامت واپس نہیں گیا۔
امریکی معیشت کو ”امریکی سنڈی“ لگ چکی ہے۔ ظالم سنڈی تب تلک چھوڑتی نہیں جب تلک کوئی کھوکھلا ہوکر قدموں میں گر نہ جائے،بنگالی بابوں نے بورڈ آویزاں کیے ہوئے ہیں ایک دفعہ آمد سے محبوب آپکے قدموں میں تو جناب امریکی سنڈی کی آمد سے معیشت آپکے قدموں میں۔
٭....٭....٭