یومِ عاشور کی تاریخی اہمیت

حافظ محمد زاہد ۔۔۔
رب العالمین کی بنائی ہوئی اس کائنات میں بہت سے انسانوں کو دوسرے انسانوں پر متعدد وجوہات کی بنا پر فوقیت حاصل ہے۔ اسی طرح رب العالمین کے بنائے ہوئے نظام الاوقات میں بعض دنوں اور راتوں کو سال کے باقی دنوں اور راتوں پر فوقیت حاصل ہے۔مثلاًماہِ رمضان کو باقی گیارہ مہینوں پر اور پھر لیلۃ القدر کو سال کی تمام راتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح  یومِ عرفہ اور یومِ عاشورا سال کے عظیم ترین دن کہلانے کے حق دار ہیں۔یومِ عرفہ 9ذوالحج کو اوریومِ عاشورا 10محرم الحرام کو کہا جاتا ہے۔محرم الحرام قمری سال کا پہلا مہینہ ہے جس کی تاریخی اہمیت مسلم ہے۔ احادیث وروایات سے اس کے فضائل و برکات ثابت ہیں۔اس ماہ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ مسلم شریف کی ایک روایت میں اس ماہ کو ’’شہر اللہ‘‘ یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔پھر اس پورے مہینے میں سے بھی یومِ عاشورا  کو خاص فضیلت اورفوقیت حاصل ہے اور یہ دن بجا طور پر تاریخی اعتبار سے سال کا عظیم ترین دن کہلانے کا حق دار ہے۔مصنفین نے احادیث مبارکہ اور تاریخی روایات کی روشنی میں اس دن کی فوقیت اور فضیلت کی 25 وجوہات بیان کی ہیںجن میں سے ہر ایک سنہرے حروف سے لکھی جانے کے قابل ہے۔اس دن عرش‘کرسی‘آسمان اور زمین‘ سورج اور چاند‘ستارے اور جنت پیدا کئے گئے۔ پھراسی دن زمین پر سب سے پہلی بارش نازل ہوئی۔ جبکہ اس دن کی خاص فضیلت انبیاء کرام ؑ کے حوالے سے ہے۔اس دن کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس دن حضرت آدمؑ صفی اللہ پیدا کئے گئے اور پھر اسی دن آپؑ کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی دن حضرت نوح ؑکی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ اسی دن حضرت ابراہیم ؑپیدا ہوئے اور پھر اسی دن آ پؑ کو نارِ نمرود سے نجات ملی۔اسی دن حضرت یعقوبؑ کی بینائی لوٹائی گئی۔اسی دن حضر ت سلیمانؑ کو ملک عظیم عطا کیا گیا۔ اسی دن حضرت یوسف ؑگہرے کنوئیں اورجیل سے نکالے گئے۔اسی دن حضرت ایوبؑ کی تکلیف رفع کی گئی۔ اسی دن سیدنا یو نس ؑمچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے۔اسی دن حضرت موسیٰ اور اُن کی قوم بنی اسرائیل کو فرعو ن سے نجات ملی اور اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرکے عبرت کا نشان بنا دیا۔ اسی دن حضرت عیسیٰ ؑکو زندہ آسمان پراُٹھایا گیا۔ اس دن کے حوالے سے‘ ان واقعات کو دیکھ کر یہ بات روزِ روشن کی طر ح عیاں ہے کہ یہ دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی برکت اور رحمت کا حامل ہے۔اسلامی تاریخ میں اس دن ایک بہت دردناک واقعہ بھی پیش آیا۔دس محرم الحرام 61ہجری کو جنت کے نوجوانوں کے سردار اور حضرت محمد ؐ کے نواسے حضرت حسینؓکو میدانِ کربلا میں شہید کیا گیا۔ اس ماہ کے آتے ہی اس واقعہ کی یاد تازہ ہو کر ہر مسلمان کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اوربرصغیر میں یہ مہینہ اس واقعہ سے ہی شہرت پا گیا ہے۔اس حوالے سے ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یومِ عاشورا کی فضیلت شہادتِ حسینؓ کی وجہ سے ہے اور اسی واقعہ کی وجہ سے یہ دن مقدس او ر حرمت والا بن گیا ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔اس لیے کہ اس دن کو تو نبی اکرمؐکے عہد مبارک میں بھی مقدس مانا جاتا تھا‘جبکہ حضرت حسین کی شہادت کا واقعہ تو نبی اکرمؐ کی وفات کے تقریباً ساٹھ سال بعد پیش آیا۔ حقیقتیہ ہے کہ اس دن کی فضیلت ماقبل بیان کردہ وجوہات کی بنا پر ہے ‘ البتہ اس دن حضرت حسین ؓ کا شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوناان کی فضیلت کی ایک اور دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شہاد ت کے لیے اتنے مقدس دن کا انتخاب کیا۔ شہادتِ حسین اور واقعہ کربلاکی تفصیلات تو زبان زدِ عام ہیں اور اس واقعہ کو یاد کرنے کے مختلف اندازہو سکتے ہیں لیکن اس واقعہ کے حوالے سے چند باتیں بہت اہم ہیں:(۱)اس دن روزہ رکھا جائے اس لیے کہ اس کی بہت فضیلت ہے۔ (۲) اس دن اپنے گھر والوں پرعام دنوں سے ہٹ کر کھانے پینے میں وسعت کی جائے‘اس لیے کہ ایسا کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ (۳)حضرت حسین کی تعلیمات کو عملاًاپنایا جائے اور ہر وقت حق کے لیے جان دینے کا جذبہ دل میں موجزن رہے۔ (۴)حضرت حسین نے وقت ِ شہادت نماز پڑھ کر نماز کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔اس لیے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ پنج وقتہ نماز باجماعت کی پابندی کریں۔ لیکن یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم نماز جیسے بنیادی فرض ہی سے غافل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دس فیصد سے بھی کم لوگ پنج وقتہ نماز کی پابندی کرتے ہیں۔رسول اللہ ؐ اس ماہ میں خصوصی عبادات کا اہتما م فرمایا کرتے تھے۔ان عبادات میںخاص یومِ عاشورا کا روزہ ہے۔اس دن کی تاریخی اہمیت کی طرح اس دن کے روزے کی بھی تاریخی اہمیت مسلم ہے۔تقریباً تمام امتوں میں اس دن کا روزہ مشہور تھا۔روایات میں مذکور ہے کہ اسلام سے قبل قریش مکہ بھی  یوم عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ اس دن وہ جمع ہوتے‘ عید مناتے اور کعبہ کو غلاف پہناتے تھے۔ اس روزے کی تین وجوہات بیان کی گئی ہیں:(۱) قریشکو اپنے آبا ء و اجداد حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑکی کچھ روایات اس دن کے حوالے سے معلوم ہوئیں تو انہوں نے ان روایات کی یادگار کے طور پر اس دن روزہ رکھنا شروع کردیا۔بعض تاریخی روایات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ نبی اکرمؐبھی نبوت سے پہلے یہ روزہ رکھا کرتے تھے۔(۲)قریش مکہ کوئی بڑا گناہ کر بیٹھے تھے اس گناہ کے کفارے کے طور پر انہوں نے اپنے لیے یوم عاشورا کا روزہ مقرر کیا۔ وہ یہ روزہ اس بات پر شکرانے کے طور پر رکھتے تھے کہ خدا نے ان کو اس گناہ کے نتائج بد سے بچا لیا۔ (۳) قریش کو ایک زمانے میں قحط نے آ لیاتھا‘ پھر اللہ نے انہیںاس قحط سے نکال لیا تو انہوں نے خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے اس دن روزہ رکھنا شروع کردیا۔ جب حضور اکرم ؐمدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے مدینہ کے یہود کو یومِ عاشورا  کا روزہ رکھتے دیکھااور آپ کو یہ معلوم ہوا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو فرعون سے نجات دلائی تھی تو آپؐنے اس دن کے روزے کا خصوصی اہتمام فرمایا اور عمومی طور پر مسلمانوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔نبی اکرم ؐکے اس خصوصی اہتمام کی بنا پر بعض علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے یومِ عاشورا کا روزہ رسول اللہؐ اور اس امت پر فرض تھا۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد یوم عاشورا کے روزے کی فرضیت ختم ہو گئی اور اس کی حیثیت نفلی روزے کی رہ گئی۔بعض علماء کے نزدیک یومِ عاشورا کا روزہ ابتدا ہی سے نفلی تھا۔اس بات سے قطع نظر کہ عاشورا کا روزہ پہلے فرض تھا یا نفل ‘اس دن کے روزے کی فضیلت آج بھی برقرار ہے۔اقوالِ رسول ؐ میں اس روزے کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ رمضان کے بعد بہترین روزہ محرم کا ہے اور فرض نماز کے بعد بہترین نماز تہجد کی نماز ہے(صحیح مسلم )۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ محرم کی دسویں تاریخ کو خود بھی روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے(بخاری ومسلم)۔نبی کریم ؐنے ایک موقع پر فرمایا کہ مجھے توقع ہے کہ یومِ عاشورا کے روزے کے بدلے اللہ تعالیٰ گزشتہ سال کے گناہ معاف فرما دیں گے۔ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن روزہ رکھنا مستحب او ر بڑے اجر وثواب کا کام ہے۔ کچھ عرصہ بعد جب نبی اکرمؐ کو معلوم ہوا کہ اس دن یہود عید مناتے ہیں تو آپؐ نے ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے آئندہ سال یومِ عاشورا کے ساتھ نو محرم کا بھی روزہ رکھنے کا ارادہ فرمایا ‘لیکن آپؐ کی زندگی نے وفا نہ کی اور آپؐ اگلے سال یومِ عاشورا سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ جبکہ ایک روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا کہ یومِ عاشورا کا روزہ رکھو ‘ اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کابھی روزہ رکھو اور یہود کی مشابہت نہ کرو۔ان احادیث کی بنا پرعلماء نے یومِ عاشورا کا روزہ رکھنے کا طریقہ یہ بیان کیا ہے کہ نو اور دس یا دس اور گیارہ محرم کاروزہ رکھا جائے۔ نبی اکرمؐ نے اس دن کے حوالے سے یہ بھی تعلیم فرمائی ہے کہ اس دن اپنے اہل و عیال پر کھانے پینے کی وسعت کی جائے۔آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص یومِ عاشورا کو اپنے اہل و عیال پر کھانے پینے میں فراخی کرے گااللہ تعالیٰ اس کے مال میں سارا سال وسعت کرے گا‘‘(مشکوٰۃ ‘بیہقی)۔یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہے لیکن اگر کوئی اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے عام دنوں کے مقابلے میں اپنے گھر والوں کواچھا کھانا کھلائے گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے امید ہے کہ اس کے سال بھر کے رزق میں ان شاء اللہ برکت رہے گی۔جناب سفیان ثوری ؒ بیان کرتے ہیںکہ میں نے ایسا کیا اورمیرا یہ تجربہ کامیاب رہا۔لہٰذا اس روایت پر اعتدال کے ساتھ عمل کرنا چاہیے اور اسراف وتبذیر سے تو ہر حال میں بچنا چاہیے اس لیے کہ یہ تو شیطان کے کام ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...