واقعہ کربلا ،ایثار اور اتحاد کا درس

Nov 15, 2013

رانا اعجاز احمد خان ایڈووکیٹ

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں حسن اور حسین  کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے۔ سینہ پر بٹھاتے تھے، کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو۔ مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھ امتیاز خاص رکھتے تھے۔ ایسا ہو اہے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین پُشت مبارک پر آ گئے تو سجدہ میں طول دیا۔ یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پُشت پر سے علیحدہ ہو گیا۔ اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ہوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ہونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسولؐ نے اپنا خطبہ روک کر دیا منبر سے اتر کر بچے کو زمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ’’دیکھو یہ حسین ہے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو‘‘ رسولؐ نے حسینؓ کیلئے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ ’’حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں‘‘ مستقبل نے بتا دیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیا میں حسین کی بدولت قائم رہے گا۔
امام حسینؓ کی عمر ابھی چھ سال کی تھی جب انتہائی محبت کرنے والے کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اب پچیس برس تک حضرت علیؓ ابن ابی طالب کی خانہ نشینی کا دور ہے۔ اس زمانہ میں امام حسینؓ اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا مطالعہ فرماتے رہے۔ یہ وہی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھرپور شباب کی منزلوں کو طے کیا۔ 35ھ میں جب حسینؓ کی عمر 31 برس کی تھی عام مسلمانوں نے حضرت علیؓ ابن ابی طالب کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا۔ یہ امیرالمومنین کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میں جمل، صفین اور نہروان کی لڑائیاں ہوئیں اور امام حسینؓ ان میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ہوئے۔ 40ھ میں حضرت علی مسجد کوفہ میں شہید ہوئے اور اب امامت و خلافت کی ذمہ داریاں امام حسنؓ کے سُپرد ہوئیں۔ امام حسینؓ نے ایک باوفا اور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسنؓ کا ساتھ دیا اور جب امام حسنؓ  نے اپنے شرائط کے تحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکے امیر معاویہ کے ساتھ صلح کر لی تھی تو امام حسینؓ بھی اس مصلحت پر راضی ہو گئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم و اشاعت میں مصروف رہے۔
یزید کو ولی عہد بنا دیا گیا اور تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ جس سے امام حسینؓ نے انکار کیا تو معاملات واقعہ کربلا کے وقوع پزیر ہونے تک جا پہنچے۔ 
محمد ابن جریر طبری‘ ابن خلدون‘ ابن کثیر غرض بہت سے مفسرین اور مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابن زیاد نے خاندان رسالتؐ کو کربلا میں شہید کیا اور قیدیوں کو اونٹوں پر شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق بھیج دیا۔ دمشق میں بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہُوا۔ یزید نے امام حسینؓ کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوئے توہین اور تعصب پر مبنی کچھ اشعار پڑھے۔ جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے: کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اُچھل پڑتے اور کہتے: شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو‘ ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کا انتقام لے لیا‘ بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئی نہ کوئی فرشتہ آیا ہے۔
حضرت امام حسینؓ نے اپنا سر دے کر اپنے نانا کے دین کا پرچم قیامت تک کیلئے بلند کر دیا …  
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے ۔۔۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اسلامیانِ پاکستان سمیت پوری مسلم اُمہ آج 10 محرم الحرام کو عقیدت و احترام کے ساتھ اور غم و سوگ کی فضا میں یوم عاشور منا رہی ہے۔  نواسۂ رسول حضرت امام حسینؓ یزید کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے 2 محرم الحرام 61 ہجری کو ابلیسی غرور اور شیطانی سیاست کے مہروں کے خلاف کربلا میں صف آراء ہوئے اور یزیدی فوج کی سختیاں اور اپنے 72 جانثار ساتھیوں سمیت تین دن کی بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے 10 محرم الحرام کو بلند درجہ شہادت پائی۔ انہوں نے تعداد میں کم اور نہتے ہونے کے باوجود جرأت و شجاعت کی ایسی مثالیں رقم کیں جو رہتی دنیا تک امت مسلمہ کے حوصلے بلند کرتی رہیں گی۔ سید الشہداء نے قوتِ ایمانی سے اسلام کے پرچم کو بلند رکھا اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے میدان کربلا میں یزیدی قوتوں سے ٹکرا کر قربانی پیش کرنے کی نئی تاریخ رقم کی۔
سانحۂ کربلا جہاں ہمیں غمگین و دلگیر کرتا ہے‘ وہیں ناقابل بیان ظلم کیخلاف جرات کا مظاہرہ کرنے کا درس بھی دیتا ہے۔ وطن عزیز آج جس طرح اپنے آپ کو نہ صرف دشمنوں میں گھرا ہوا محسوس کررہا ہے‘ بلکہ اپنے اندرونی معاملات پر بھی قابو پانے میں ناکامی کا شکار ہے‘ صرف جذبہ حسینیت اور سچے عزم کی پختگی کی بنیاد پر ہی ہم اتحاد و یکجہتی  ملت کا عملی مظاہرہ کرکے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم آج بھی فرقہ بندی اور فروعی اختلافات میں الجھ کر انتشارِ امت کو فروغ دیتے ہی نظر آتے ہیں۔ آج بلاامتیاز تمام مکاتب فکر کے اسلامیانِ پاکستان کی جانب سے خود کو مذہبی روداری کا عملی نمونہ بنانے کی ضرورت ہے جو یوم عاشور کا تقاضا بھی ہے۔

مزیدخبریں