680 سن عیسوی اور اکتوبر کا دوسرا ہفتہ سال کا گرم ترین ہفتہ تھا۔ بغداد سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک جانب درجنوں رہائشی خیمے گڑے تھے تو دوسری جانب فرات کے کناروں پر حاکمِ وقت کے سینکڑوں لشکری خیمہ زن تھے۔ رہائشیوں پر فوجی حکمت عملی کے تحت کئی روز سے پانی بندکیا جا چکا تھا، جسموں کو جھلسا دینے والی گرمی میں بچے پیاس سے بلکتے تھے، جوانوں کے ہونٹ خشک تھے، خواتین کے لب پپڑی بننے لگے تھے اور بزرگ مسلسل صبر و استقامت کا پیکر بنے ہوئے تھے، لیکن کوئی اپنے دشمنوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کو تیار نہ تھا۔ یہ گھرانہ دستِ سوال دراز کرتا بھی کیوں کرتا؟ یہ سرورِ کونین کے نواسے کا گھرانہ تھا۔ یہ حضرت حسینؓ کا گھرانہ تھا، جس پر کربلا کے لق و دق صحرا میںکوہِ گراں گرانے کی تیاریاں مکمل کی جا چکی تھیں۔
جب حق کے ساتھ ابدی ملاپ کا وقت قریب آن پہنچا تو حضرت حسینؓ لشکریوں کو مخاطب ہوئے ’’اے لوگو! جلدی نہ کرو، پہلے میری بات سُن لو، مجھ پر تمہیں سمجھانے کا جو حق ہے اسے پورا کر لینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سُن لو۔ اگر تم میرا عذر قبول کر لو گے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی۔ تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالیٰ میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے۔‘‘ حضرت حسینؓ پھر گویا ہوئے ’’لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو تو سہی کہ میں کون ہوں؟ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو، خیال توکرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبیؐ کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں؟ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہؓ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیارؓ میرے چچا نہ تھے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے، تو بتاؤ کہ کیا تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا چاہیے؟‘‘
حضرت حسینؓ کی اس تبلیغ کا لشکریوں پر کوئی اثر نہ ہُوا اور دس محرم الحرام کو اسلامی تاریخ کا یہ افسوسناک ترین سانحہ پیش آیا، جس میں حضرت حسینؓ کا کردار حق پرستوں کیلئے روشنی کا ایک مینار بن گیا۔ حریت ، آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کیلئے جب بھی مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو حضرت حسینؓ کی قربانی کو مشعل راہ پایا۔ آپ ہی سے مسلمانوں نے سیکھا کہ جبر و استبداد کے سامنے سینہ سپر ہونا عین رضائے الٰہی ہے۔ اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ نبی کریمؐ اور خلفائے راشدینؓ نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خدا پرستی، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ حضرت حسینؓ بھی انہی اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدان عمل میں اُترے، لیکن راہ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدان کربلا میں گزری وہ جور جفا ، بے رحمی اور استبداد کے سوا اور کیا تھا؟
نواسہ رسولؐ کومیدان کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے شہید کرکے ان کے جسم اور سر کی بے حرمتی کی گئی اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔ اس جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ نواسہ رسولؐ نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں انہیں سرے سے درخور اعتنا ہی نہ سمجھا گیا۔ جہاں تک حق و انصاف ، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہے یہ کہنا درست ہوگا کہ سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب بھی ہے۔ حضرت حسینؓ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت جرأت اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ حضرت حسینؓ کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروانِ منزلِ شوق و محبت اور حریت پسندوں کیلئے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اُس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔
قارئین محترم! واقعہ کربلا در اصل ہمیں بتاتا ہے کہ ایک سچا اور سُچا شہید کیا ہوتا ہے اور ایک شہید کی عظمت کیا ہوتی ہے؟ ایک شہید کس طرح حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی ، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرتا ہے اور کس طرح اسلامی روایات کی لاج رکھتے ہوئے اُنہیں ریگ زار عجم میں دفن ہونے سے بچا لیتا ہے۔ واقعہ کربلا ہمیں ایک سَچے اور سُچے شہید کے اوصاف بھی بتاتا ہے کہ ایک شہید عصمت و طہارت کا مجسمہ اور زُہد و عبادت کا پیکر ہوتا ہے۔ واقعہ کربلا ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ایک شہید جودو سخا کا بہر بیکراں، کمالِ اخلاق کی انتہا اور جرأت و بہادری کی مثال بنتا ہے؟ واقعہ کربلا ہمیں ایک شہید کی اخلاقی جرأت، راست بازی، راست کرداری، قوتِ اقدام، جوش عمل، ثبات و استقلال اور صبر و برداشت کی تصویریں بھی دکھاتا ہے۔
اے کاش! آج شہیدوں اور شہادتوں کے معاملے پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے والے واقعہ کربلا کے شہیدوں سے ہی کوئی سبق حاصل کر لیں۔ اے کاش! ’’کون شہید، کون نہیں‘‘ کے فتوے دینے والے ایک ہزار تین سو تینتیس سال پہلے کے ایک سَچے اور سُچے شہید سے ہی شہادت کا مقصد اور درس سیکھ لیں۔
ایک سچا اور سُچا شہید !
Nov 15, 2013