عمران اور شیخ کا اندازِ تخاطب

اپنی منشا اور پسند کا جواب تراشنے کی بے پناہ صلاحیت رکھنے والے عمران خان اور شیخ رشید کو اپنے ضمیر سے اس سوال کا جواب بھی پوچھنا چاہئے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں؟ ان کے لہجے کی تلخی سے تو یہی اخذ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سیاسی شہید بنا کر عالمی توجہ کا مرکزِ نگاہ بنانے کی کوششوں میں جُتے ہوئے ہیں اور ایک طے شدہ منصوبے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ پی ٹی وی پر حملہ کر کے خالی ہاتھوں پر مہندی رچانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ تحریک انصاف اپنی بقا کے مسئلے سے دوچار ہے۔ اسلام آباد دھرنا عمران خان کی بے حکمتی کا شاہکار ہے۔ وابستگان تحریک انصاف میں سے عقلِ سلیم کا مالک کوئی بھی رہنما شیخ رشید کی بڑھکوں، جلائو گھیرائو، مارو اور مر جائو سے اتفاق نہیں کرتا۔ ایسی چرب زبانی سے یہ باور کرانے کی کوشش میں ہیں کہ پورا ملک اپوزیشن کے ساتھ کھڑا ہے لہٰذا عالمی قوتیں نواز شریف کی مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ کر انکے سر پر دستِ شفقت رکھیں۔ عمران خان کہہ رہے ہیں یہ آخری موقع ہے۔ 30 نومبر کے بعد جو ہو گا اس کے ذمہ دار نواز شریف ہوں گے۔ زہر اُگلتی زبانیں رعونت صفت لہجے اور ضد نے تحریک انصاف کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں سے مصالحتی پالیسی اپنانا ان کیلئے سیاسی موت کے مترادف ہو گا جبکہ مزید آگے جانا بھی تباہی ہو گی کیونکہ بلندیوں سے کہیں خطرناک پستیاں ہوتی ہیں اور کوئی بلند پرواز کبھی پستیوں میں نہیں اُترتی۔ گزشتہ دو دن سے سارے کالم نگار اور اینکر پرسن تحریک انصاف کے دوست گویّے کی گندہ دہنی کا ذکر کر رہے ہیں۔ میں نے ٹالنے کی کافی کوشش کی کیونکہ جس شخص کا نام لینے سے قلم کو متلی ہو اور زبان بے مزہ، ایسے شخص مخاطبت کے لائق نہیں ہوتے، اسی بنا پر مَیں انہیں دھویں کا ایک مرغولہ کہتا ہوں۔ وہ ایک بانسری ہیں جنہیں تحریک استقلال نے پنڈی کالج کے ویرانے سے اٹھایا پھر نواز شریف کے ہاتھ آئی تو وہ اقتدار میں لیکر آ گئے۔ پرویز مشرف نے اسکی سُریں سیدھی کیں، ق لیگ نے رنگ روپ دے کر اسے شہنائی بنایا اور بہت دنوں بجتی رہی پھر اس جماعت کا بھانڈا پھوڑا تو پانچ سال پنڈی میں بے منزل مسافر کی طرح تلاشِ منزل میں لگے رہے ، آجکل عمران خان بجا رہے ہیں، بجانے والوں کی ہمت ہے جن سُروں کی انہیں ضرورت ہوتی ہے اس سے پیدا کرتے اور ڈنٹر پیلتے ہیں۔ الزام شیخ پر نہیں الزام ان پر ہے جو اسے بجا رہے ہیں۔
عمران خان تو اس وقت چند افراد کے ہاتھوں ہائی جیک ہو چکے ہیں، خان سیاست میں نومولود ہیں جبکہ یہ فصلی بٹیرے پکی فصل کو چُگ کر اُڑنا خوب جانتے ہیں۔ عمران خان جب پرویز مشرف کی حمایت سے کنارہ کش ہوئے تو گلی کوچوں میں یوسفِ بے کارواں کی طرح بھٹک رہے تھے تب لاہور میں عمر چیمہ نے ان کا ہاتھ تھاما اور انکی دستگیری کیلئے آگے بڑھے،انکے نام اور کام کو رونق دی اور ایک قومی ٹی وی چینل نے انکے سیاسی چہرہ کو غازہ مہیا کیا۔ جو لوگ کل عمران خان کی ساری مصیبت میں شریکِ درد تھے اب ان پر انکے بِلے غرّانے لگے ہیں اور جو لوگ پنجاب یونیورسٹی اور ملک بھر میں ان کیلئے مصیبت کا باعث تھے وہ آج انکی مونچھ کا بال بن گئے ہیں یا بن رہے ہیں، صرف اس لئے کہ وہ جس کھونٹے پر بندھے ہوئے تھے وہ ٹوٹ گیا اور اب آپ کی ڈیوڑھی میں انہیں جگہ مل گئی ہے اور وہ حقِ نمک ادا کر رہے ہیں۔
 ہماری اپوزیشن کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ بھارت، امریکہ، برطانیہ، ترکی اور چائنہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اپوزیشن کو اغیار کے ہاتھوں کھلونا بننے کی بجائے حکومت کی رہنمائی کر کے اسے عوامی فلاح و بہبودکے کاموں کی طرف متوجہ کرنا چاہئے۔ ترکی کے اپوزیشن لیڈر کمال دادوگلو کی مثال ہماری اپوزیشن کیلئے مشعل راہ ہونی چاہئے۔ ماضی میں ترکی اور عراق کے مابین حالات پاکستان اور بھارت جیسے تھے، عراق کے نور المالکی ترکی کے طیب اردگان اور عبداللہ گل کو پسند نہیں کرتے تھے، کمال دادوگلو کے پاس یہ بہترین موقع تھا کہ وہ نور المالکی کے کندھوں پر بیٹھ کر انتشاری سیاست کا آغاز کرتے۔ انکی حمایت لیکر ترکی میں جلسے جلوس کرتے ۔یورپی طاقتوں کو ترکی کے اسلام کی طرف مائل ہونے پر اکساتے ۔اور یوں افراتفری اور انتشارپھیلا کر ترکی پر ترقی کے راستے بند کر دیتے لیکن عقلمند کمال گلو نے اس آپشن کو مسترد کر کے حقیقی اپوزیشن لیڈر بننے کا فیصلہ کیا ۔ 20 اگست 2013ء کو کمال گلو نے عراق کا دورہ کیا تو چار روزہ سرکاری دورے میں مالکی نے انہیں ہیڈ آف سٹیٹ کا پروٹوکول دیا۔ کمال گلو نے نوری سے ملتے ہی انکے جسٹس پارٹی سے اختلافات ختم کروانے شروع کر دئیے، ترک صدر اور وزیراعظم کی تعریف کی اور یوں نوری اور اردگان کے درمیان تعلقات بہتر ہونے لگے۔ حقیقت میں یہ اپوزیشن کا اصل چہرہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرے اور بیرون ملک اسی کی تعریفوں کے پُل باندھے تاکہ ملک میں سرمایہ کاری بڑھے اور عوام خوشحال ہوں جبکہ ہمارے ہان الٹی گنگا بہہ رہی ہے ہم صدیوں سے مُردار گِدھوں کو شاہین، گرگس کی طرح تبدیل ہونے والوں کو ہمدرد، لٹیروں کو لیڈر اور رہزنوں کو رہنما سمجھ رہے ہیں۔ ہمیں آج نہیں تو کل سچ کو اپنانا اور جھوٹ پر تھوکنا ہو گا ورنہ ہمارا حال شامیوں سے بھی بُرا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن