وزیراعظم میاں نوازشریف‘ انکے برادر خورد وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف سمیت وفاقی اور صوبائی کابینہ کے ہر رکن ان دھرنوں کے نقصانات پر شکوہ کناں ہیں۔ جن کا آغاز پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے زیراہتمام 14 اگست کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں کیا گیا تھا۔ پاکستان عوامی تحریک کے قائد علامہ طاہرالقادری نے تو 70 روز کے بعد پاکستان عوامی تحریک کا دھرنا 21 اکتوبر کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا جبکہ عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا اپنے مطالبات پورے ہونے تک جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے اور اس طرح ان کا دھرنا بدستور جاری ہے۔ وجوہ کچھ بھی ہوں مگر ان دھرنوں کی دھوم اندرن ملک تو مچی سو مچی‘ بیرون ملک ارباب اقتدار کی زبانی بھی سُنی گئی۔ وزیراعظم میاں نوازشریف چین کے دورے پر گئے تو 8 نومبرکو بیجنگ میں عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم ”لی کی چانگ“ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ دھرنوں کی وجہ سے جو کام رہ گیا تھا۔ چین کے ساتھ ہونیوالے معاہدوں سے اس کو روح ملے گی۔ انکے دورے کا مقصد ملک میں بجلی کے مسئلے کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہے۔ بیجنگ میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے چینی سرمایہ کاروں اور پاکستانی وفد کے اجلاس سے خطاب کے دوران جہاں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پاک چین منصوبے کا ذکر کیا وہاں انہوں نے دھرنوں کو بھی فراموش نہ کیا اور کہا کہ دھرنوں سے چینی صدر کا دورہ¿ پاکستان ملتوی کرانے کے خواہشمندوں کی خوشیاں عارضی ہیں۔ ہم محنت اور عزم کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور دھرنوں کی سیاست سے ہونیوالے نقصان کا ازالہ کیا جائے گا۔ بیجنگ ہی میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ دھرنوں کی وجہ سے چین کے صدر کادورہ پاکستان منسوخ ہوا تھا۔
ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو مگر ان دھرنوں کے باعث ارباب حکومت کو اپنے دیگر حقیقی فرائض کی انجام دہی سے کن عوامل نے روک رکھا تھا۔ دھرنے تو صرف اسلام آباد کے ڈی چوک ہی میں تھے اور ابھی ایک برقرار ہے مگر وفاقی اور پنجاب کابینہ کے بیشتر ارکان اپنے فرائض کو پس پشت ڈال کر اپنے آقاﺅں کی خوشنودی کیلئے اسلام آباد کے دھرنے کیخلاف ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بیان جاری کرنے کی دوڑ میں حصہ لے رہے ہیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ اس معاملے میں ایسے لوگ بھی اپنا کردار ادا کرنا ضروری سمجھ بیٹھے ہیں جو حکومت کے تنخواہ دار ملازم کی حیثیت رکھتے ہیں اور محض خوشامد کو اپنی نوکری کی بقاءخیال کرتے ہیں۔ صرف بجلی اور صرف بجلی ہی پاکستان کے ان کروڑوں عوام کا مسئلہ نہیں۔جو دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں‘ ایسے پاکستانیوں پر اقتصادی جان کنی کی کیفیت طاری ہے۔ پاکستان نے مسلم لیگ (ن) وفاق میں ڈیڑھ برس سے اور ملک کے سب سے بڑے آبادی والے صوبے پنجاب میں قریباً ساڑھے چھ برس سے برسراقتدارہے۔ اس عرصے کے دوران اس جماعت کے قائدین کی طرف سے پاکستان اور عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے کونسا کام کیا گیا کہ عوام سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔ پنجاب کے گورنر چودھری محمدسرور تو پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سربراہ وزیراعظم میاں نوازشریف کے نامزد کردہ ہیں۔ انکا پاکستان کی کسی بھی اپوزیشن جماعت حتیٰ کہ حکمرانوں کے کٹر مخالف پاکستان تحریک انصاف سے کوئی راہ و رسم نہیں مگر انہوں نے بھی وہ باتیں کہہ دی ہیں جنہیں زبان سے ادا کرنے کا یارا ارباب اقتدار کے کسی خوشامدی بیان باز کو ہو ہی نہیں سکتا۔ چودھری محمد سرور نے گزشتہ روز پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی 31 ویں میڈیکل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت پچاس فیصد عوام کو پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور اسی گندے پانی کے باعث وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے مریضوں سے پاکستان کے ہسپتال بھرے پڑے ہیں۔ پنجاب کے گورنرکے بقول اربوں روپے صاف پانی کے پلانٹ لگانے پر خرچ ہوتے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ اول تو پلانٹ لگائے ہی نہیں جاتے‘ اگر لگائے جاتے ہیں تو دو نمبر پلانٹ لگا دیئے جاتے ہیں۔ ایسے عناصر کیخلاف سخت اقدامات کرکے ان کا کڑا احتساب ہونا چاہئے؟ مگر یہ احتساب کون کریگا؟
دھرنوں کا عذر تراش کر اپنے فرائض سے کوتاہی کا مرتکب ہونیوالے ارباب اقتدار اور انکے حاشیہ نشینوں کے اگر خدا نے کچھ کر گزرنے کی توفیق دی ہوتی تو کم از کم عدالت عظمیٰ ہی کے ریمارکس پر عوام کی ان نامرادیوں کے ازالے کی روش صدق دل سے اختیار کرتے جو نامرادیاں انہی حکمرانوں کے مخصوص مفادات سے عبارت پالیسیوںکا نتیجہ ہیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس ثاقب نثار پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جعلی ادویات سے امرض قلب کے مریضوں کی ہلاکت کےخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران باور کرایا کہ جمہوری دور میں شہریوں کو جینے کا حق اور صحت کی بہترین سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ جعلی ادویات سے شیرخوار بچے مر رہے ہیں اور گیارہ کروڑ عوام والے صوبے میں وزیرصحت ہی نہیں ہے اگر آج ملک میں صحت کا نظام ٹھیک نہ ہوا تو قوم کے بچے ہم سب کو قصوروار سمجھیں گے۔ جسٹس ثاقب نثار نے یہ بھی باور کرایا کہ سپریم کورٹ ملک میںصحت کے نظام پر اب آنکھیں بند نہیں کریگی۔“
ایوان اقتدارکی غلام گردشوں میں موج میلے کرنے والے ایسے حقائق کی روشنی میں حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے سوچ و فکر کی روش سیدھی کرتے اسکی بجائے انکے انداز فکر میں غیرسنجیدگی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں جیسا کہ وفاقی وزیراطلاعات و نشریات نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چین میںثقافتی شو ہوا تو پرویز خٹک کو بھیج دینگے۔پاکستان کے اندرنی اور بیرونی حالات کو کن سنگین اور نازک ترین مرحلوں سے واسطہ ہے۔ تھر میں غربت کے مارے عوام پر کونسی قیامت گزر رہی ہے۔ کروڑوں خاندان بھوک ننگ کی کن اذیتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر جارحانہ کارروائیوں کے مضمرات کیا ہیں؟ اندرن ملک غربت کیا رنگ دکھا رہی ہے؟
حکومت اور حکمرانوں کے تنخواہ داروں کو ان حقائق کی کوئی پروا نہیں‘ نہ ہی ان میں ایسی صلاحیت ہے کہ ایسے حالات کے تباہ کن نتائج کا ادراک کر سکیں۔
دھرنے تو صرف اسلام آباد کے ڈی چوک تک محدود رہے۔ حکمران اپنے حاشیہ نشینوں اور حواریوں کے ساتھ اپنے حقیقی فرائض کو دانستہ طورپر پس پشت ڈال کر بیان بازی میں مصروف اور مسائل کی آگ میں سلگتے ہوئے عوام دست بددعا ہیں
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
کوئی آبلہ پا وای¿ پُرخار میں آوے