خادم اعلی پنجاب اور سیلاب متاثرین

Nov 15, 2014

محمد عارف خان سندھیلہ

اہل زمیں پر بلاشبہ ہر آفت فلک سے نازل ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کی تمام آسمانی اور زمینی آفات سے نمٹنے اور برداشت کرنے کی ہمت بھی انسانوں کو وہی مالک ارض و سما ہی دیتا ہے جس کے بل بوتے پر وہ مصائب و مشکلات کا مقابلہ کرکے کامیاب و سرخرو ٹھہرتے ہیں گزشتہ اگست میں صوبہ پنجاب کے وسیع علاقے میں اہل وطن کو منہ زور سیلاب کے نتیجہ میں ہونے والی ناقابل بیان تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ آفرین ہے خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف پر جنہوں نے اپنے عوامی خطاب خادم اعلیٰ کی لاج رکھتے ہوئے متاثرین سیلاب کے مصائب و الام کو کم کرنے کے لئے اپنے دن رات ایک کر دئیے۔ انہوں نے صوبے کے کونے کونے قریہ قریہ میں جا کر پانی میں گھرے ہم وطنوں کو مسائل سے نجات دلائی جو ناصرف قابل ستائش ہے بلکہ متاثرین سیلاب پر ثابت کر دیا کہ میاں شہباز شریف غم و اندوہ کے لمحات میں متاثرین کے ساتھ رہے۔ اب جبکہ متاثرین کی بحالی کا مرحلہ آن پہنچا ہے متاثرین سیلاب کی آبادکاریوں میں خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کی کاوشیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب امدادی پیکج کے تحت آبادکاری کے دوسرے مرحلے میں 3 لاکھ پچاس ہزار سے زائد متاثرین میں 6 ارب روپے کی خطیر رقم تقسیم کی جا رہی ہے ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں۔ خادم اعلیٰ کے متاثرین سیلاب میں امدادی رقم صرف ایک ماہ کی قلیل مدت میں تقسیم کرنے کے فیصلے نے سیاسی مخالفین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ واضح رہے کہ امدادی رقم کی تقسیم سیاسی بنیادوں پر نہیں کی جا رہی بلکہ شفاف سروے کی بنیاد پر تباہ حال مکانوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر بلاامتیاز تقسیم کا طریق کار واضح کیا گیا ہے۔ 2 ارب روپے کی خطیر رقم کی پہلی قسط 25,25 ہزار روپے فی خاندان عید قربان سے پہلے ہی ادا کر دی گئی تھی۔ یہ بات اب کسی بیان اور وضاحت کی محتاج نہیں کہ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد نواز شریف ہوں یا خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف دونوں نے عوام سے کئے اپنے وعدوں کی پاسداری سے کبھی بھی پہلو تہی نہیں برتی۔ تمام تر مشکلات اور وسائل کی کمی کے باوجود ہر مرحلے پر عوام کو ریلیف پہنچانے کی حتی المقدور کاوشیں کی ہیں۔ یہ دونوں بھائیوں کی نیتوں اور کوششوں کا خلوص اور جذبوں کی صداقت کا ثمر ہے کہ خداوند بزرگ و برتر نے انہیں مخالفین کے مقابلے میں ہمیشہ سرخرو و سربلند رکھا۔ ستم ظریفی ہے کہ الزام خان کنیٹر پر کھڑے ہو کر اپنی خود ساختہ کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔ پوری ڈھٹائی سے جھوٹ پر جھوٹ بول کر ملکی معیشت کا بولو رام کر رہے تھے۔ ایسے لمحات میں چینی صدر کو اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا بلکہ مختلف معاہدوں پر دستخط ہونے کی صورت میں وطن عزیز کی معیشت کو استحکام اور سنبھالا ملتا۔ عوام کو ترقی و خوشحالی کے ثمرات ملتے نام نہاد دھرنے کے باعث وہ سب بھارت کی جھولی میں جا پڑے جس پر راقم کا قیاس گمان میں تبدیل ہو گیا کہ الزام خان غیروں کی کٹھ پتلی ہیں جو اپنے غیر ملکی آقائوں کے اشاروں پر پاکستانی معیشت کی ترقی میں حائل ہو رہے ہیں۔ صد آفرین میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف پر جنہوں نے ملکی و عوامی درد محسوس کرتے ہوئے الزام خان کے منفی پراپیگنڈوں پر کان دھرنے کے بجائے دو قدم آگے بڑھ کر خود چین جا کر 42 ارب ڈالر کے 19 معاہدے کر ڈالے۔ ان معاہدوں سے جہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کا دروازہ کھلے گا وہاں عوام کے لئے بہتر روزگار اور سستی بجلی کا حصول یقینی ہو گا۔ پاور جنریشن کے یہ معاہدے کوئلے، شمسی توانائی اور پن بجلی پر مشتمل ہیں۔ جرمنی سے کئے جانے والے دو مزید معاہدے الگ ہیں۔ ان معاہدوں کی تکمیل کے لئے ارض پاک میں سیاسی استحکام کا ازحد ہونا ضروری ہے مگر صد افسوس الزام خان پر جنہوں نے حالات کا ادراک کرنے کی بجائے میں نہ مانوں میں نہ مانوں کی رٹ لگا رکھی ہے۔ ہر شام گھنٹہ و گھنٹے کنٹینر پر آ کر دروغ گوئی کرکے بنی گالا واپس چلے جاتے ہیں۔ سیاسی جلسوں میں مضحکہ خیز بیانات داغ دیتے ہیں۔ یو ٹرن لینے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ الزام خان کی ایک سانس میں عدلیہ آزاد تو ہوتی ہے مگر غیر جانبدار نہیں۔ دوسری سانس میں ہی جوڈیشل کمشن کے قیام کا مطالبہ کر ڈالتے ہیں۔ موصوف ہوش میں ہی نہیں رہتے کہ پہلے مرحلے میں انہوں نے کیا کہا تھا دوسرے میں خود ہی تردید کر ڈالتے ہیں۔ ان کا ہر لحظہ بدلتی سوچ اور یو ٹرن نے سنجیدہ حلقوں میں ان کا اپنا تماشا بنا ڈالا ہے۔ الزام خان کو ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ حکومت اور سیاست، وحشت سے نہیں حکمت سے کی جاتی ہیں۔ یہ کرکٹ کا کھیل نہیں سنجیدہ کام ہے مگر میں بڑے وثوق اور طمطراق سے کہتا ہوں کہ الزام خان مذکورہ تمام صفات سے عاری ہیں انہیں یہاں تک معلوم نہیں کہ سیاسی افراد کا ہر عمل تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ غلط عمل اور فعل کو کبھی بھی استثنیٰ نہیں ملتا۔ جمہوری نظام میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں مگر افسوس الزام خان اپنے آپ کو سپیرئر کے زعم میں مبتلا ہو کر ہر طرح کی اخلاقی حدوں کو پامال کئے جا رہے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب حکومت اور ریاست میں فرق کا خیال نہ رکھا جائے تو نقصان ملک کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ پچھلے چند ماہ سے نظر آ رہا ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی حکومت سے دشمنی کی نفسیاتی کیفیت بہت سنگین ہو چکی ہے بغیر کسی ثبوت کے تواتر سے جھوٹے الزامات لگانا اور انہیں مسلسل دہراتے رہنا ایک ایسا عمل ہے جس کے تمام تر فوائد مسلم لیگ ن اور اس کی حکومت کو پہنچ رہے ہیں۔ وزیراعظم کو بلاوجہ ہدف تنقید بنائے رکھنا اور اپنی ضد میں ہر حد کو پار کر لینا یقیناً کوئی مستحسن بات نہیں۔ میرا ان کے لئے صائب مشورہ ہے کہ وہ 2018 میں ہونے والے جنرل انتخابات کا انتظارکریں ان کے طرز عمل سے انہی کے ساتھی ایک ایک کرکے انہیں چھوڑتے جا رہے ہیں۔ 2018ء تک کہیں ایسا نہ ہو کہ قریشی بھی ان کے ساتھ نہ رہیں۔ قائدین مسلم لیگ ن محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف اپنا ہر لمحہ عوامی خدمت میں صرف کر رہے ہیں ملکی بہتری کے لئے الزام خان خیبر پی کے کی حکومت سے عوام کے لئے اصلاحاتی تبدیلیاں کروائیں وہاں پولیو کے کیسز منہ کھولے کھڑے ہیں ان کے خاتمے کے لئے مرکزی حکومت سے تعاون کریں۔

مزیدخبریں