اسلام آباد (آئی این پی) سینٹ ذیلی کمیٹی برائے پانی و بجلی نے اووربلنگ کا ذمہ دار نیپرا کو قرار دیتے ہوئے آئندہ اجلاس میں نیپرا کے اعلیٰ حکام کو طلب کر لیا‘ ارکان نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو اندرون ملک لگانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبے سمندر کے نزدیک لگائے جائیں تاکہ مشینری کو منتقل کرنے پر اضافی ٹیکس ادا نہ کرنے پڑیں‘ برآمد کر دہ کوئلہ سے انتہائی مہنگی بجلی پیدا ہوگی جو صارفین کیلئے ناقابل برداشت ہوگی‘ جامشورو، تھر اور گڈو منصوبوں کیلئے غیر معیاری مشینری خراب ہو چکی ہے‘ جرمنی یا انگلینڈ سے اعلیٰ معیار کی مشینری منگوائی جائے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ سب سے بڑا مسئلہ گردشی قرضے ہیں جو 500 ارب کی ادائیگی کے بعد پھر 300 ارب ہو گئے ہیں بین الا قوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھائو پر ٹیرف کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ وزارت کے حکام کے مطابق کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے پروجیکٹس کیلئے بیرونی دنیا سے سرمایہ کاروں کے نہ آنے کی وجہ سے چینی کمپنیوں کیلئے زیادہ ٹیرف رکھا گیا‘ کیا پاکستان کے حالات افغانستان سے بھی بدتر ہیں؟ کہ مقامی سرمایہ کاروں نے معاہدے نہ کئے‘ کنوینئر کمیٹی کا حکام سے استفسار۔ چینی کمپنیوں کو دئیے گئے ٹیرف پر کنونیئر کمیٹی نے کہاکہ سرمایہ کار کو کوئلہ بھی حکومت فراہم کرے گی‘ فی یونٹ پیداواری لاگت پھر بھی 9 روپے 48 پیسے ہوگی جو انتہائی مہنگی ہو گی۔ محسن لغاری نے کہا کہ کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے تمام پراجیکٹس چین کی پرائیوٹ کمپنیوں کو دینے کیلئے 2013 کی پالیسی پر نظر ثانی کی گئی کنوینئر کمیٹی نے نیپرا وزارت پانی وبجلی کے افسران سے سوال کیا کہ کیا کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے تمام پراجیکٹس کے معاہدے پاکستان اور چین کی حکومتوں اور ریاستوں کے درمیان ہوئے یا چین کی پرائیویٹ کمپنیوں کے درمیان جس پر ایڈیشنل سیکرٹری عمر رسول ایڈوائزر نیپرا سید انصاف نے آگاہ کیا کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والی تمام کمپنیاں پرائیویٹ چینی سرمایہ کار کمپنیاں ہیں اور کہا کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے کوئلے کے پراجیکٹس سے دور جانے کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن پاکستان میں ماحولیات پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لئے بغیر کم سطح کی مشینری اور ٹیکنالوجی کو زیر استعمال لا کر منصوبوں پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔
اووربلنگ کی ذمہ دار نیپرا ہے: سینٹ کمیٹی، آئندہ اجلاس میں حکام کی طلبی
Nov 15, 2014